رسائی کے لنکس

پولینڈ کی سرحد پر واگنر گروپ کی جنگی مشقیں، معاملہ کتنا گمبھیر ہے؟


 بیلا روس اور واگنر کے کرائے کے فوجی تربیتی مشقیں شروع ہونے سے پہلے ، فوٹو اے پی، 20 جولائی 2020
بیلا روس اور واگنر کے کرائے کے فوجی تربیتی مشقیں شروع ہونے سے پہلے ، فوٹو اے پی، 20 جولائی 2020

نجی جنگجو گروپ واگنر کے فوجیوں نے بیلا روس کے فوجیوں کے ساتھ مل کر پولینڈ کی سرحد کے قریب واقع شہر بریسٹ کی ایک فائرنگ رینج سے اپنی جنگی مشقوں کا آغاز کر دیا ہے۔ بیلا روس کی وزارت دفاع کے مطابق یہ مشقیں ایک ہفتے تک جاری رہیں گی۔ ان جنگی مشقوں سے بیلاروس کے ہمسایہ ملکوں میں اپنے دفاع سے متعلق خدشات جنم لے ر ہے ہیں اور پولینڈ نے بیلا روس کے ساتھ سرحد پر اپنے فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کر دیا ہے۔

واضح رہے کہ واگنر گروپ نے اپنے لیڈر پریگوزن کی قیادت میں گزشتہ ماہ روس میں فوجی بغاوت کی تھی، جس کے چوبیس گھنٹے بعد روس کے ہمسایہ ملک بیلاروس کی ثالثی میں بغاوت ختم کرنے کے لئے روس اور واگنر گروپ کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا جس کے تحت واگنر گروپ کے فوجیوں کو روس کے بجائے بیلاروس میں قیام کی اجازت ملی تھی۔ اس معاہدے کے تحت واگنر گروپ کو بیلا روس کا دفاع مضبوط بنانے میں مدد کرنی ہے۔

بدھ کو جاری کی گئی ایک ویڈیو میں واگنر گروپ کے سربراہ پریگوزن کو دیکھا جا سکتا ہے، جو گزشتہ ماہ کی بغاوت کی قیادت کے بعد پہلی بار منظر عام پر آئے ہیں۔ اس ویڈیو میں انہیں اپنے فوجیوں سےیہ کہتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے کہ افریقہ میں اپنے فوجیوں کی نئی تعیناتی سے قبل وہ کچھ وقت بیلا روس کی فوج کی تربیت پر صرف کریں گے۔

بیلاروس اور واگنر گروپ کے فوجی ۔۔فوٹو اے پی
بیلاروس اور واگنر گروپ کے فوجی ۔۔فوٹو اے پی

ایک روز قبل بیلا روس میں فوجیوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے والے ایک سر گرم گروپ، بیلا روسکی ہاجون نے کہا تھا کہ واگنر گروپ کے 2 ہزار سے زیادہ فوجیوں کے 9 قافلے بیلاروس میں داخل ہو تے دیکھے گئے ہیں۔ جبکہ واگنر کے ایک کمانڈر نے اپنی کمپنی سے منسلک ایک میسجنگ ایپ پر ایک بیان پوسٹ کیا تھا جس میں کہا گیا کہ واگنر کے لگ بھگ 10 ہزار فوجی بیلا روس میں تعینات کیے جا رہے ہیں۔

بیلا روس کی حزب اختلاف کی لیڈر سویتلانا سیہانوسکایا (Sviatlana Tsikhanouskaya )نے کہا ہے کہ واگنر کے فوجیوں کی تعیناتی ان کے ملک کو عدم استحکام میں مبتلا کر دے گی اور اس کے پڑوسیوں کے لیے خطرہ بن جائے گی۔ واضح رہے کہ سویتلانا سیہانوسکایا کو بیلاروس میں 2020 کے انتخابات میں سخت گیر صدر لوکا شینکو کو چیلنج کرنے کے بعد بیلا روس چھوڑنے پر مجبو ر کر دیا گیا تھا۔

بیلا روس اور واگنر گروپ کی جنگی مشقوں کی ایک جھلک ۔20جولائی 2023 فوٹو اے پی
بیلا روس اور واگنر گروپ کی جنگی مشقوں کی ایک جھلک ۔20جولائی 2023 فوٹو اے پی

ادھر بیلاروس کے ہمسایہ ملک پولینڈ کے وزیر دفاع نے ملک کے سرکاری ریڈیو پر واگنر کے ہزاروں فوجیوں کو بیلا روس میں منتقل کرنے پر تحفظات کا اظہارکرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ پولینڈ بھی اپنے دفاع کے لئے چند فوجی یونٹس کو پولینڈ کی مشرقی سرحد کی طرف منتقل کر رہا ہے۔

واگنر گروپ کی بغاوت اور اسکے بعد ہونے والے سمجھوتے سے، جس کے تحت بغاوت کے لیڈر یووگنی پریگوزن کو بیلا روس میں پناہ لینے کی اجازت دی گئی تھی، بیلاروس کے دیگر ہمسایہ ملکوں ایسٹونیا، لیٹو یا، لتھوانیا میں بھی گہری تشویش پیدا ہو گئی ہے۔

واگنر گروپ کا ایک فوجی فائرنگ کی تیاری کرتے ہوئے ۔20جولائی 2023 فوٹو اے پی
واگنر گروپ کا ایک فوجی فائرنگ کی تیاری کرتے ہوئے ۔20جولائی 2023 فوٹو اے پی

لتھوانیا کے صدر گیتا ناس نوسیدا نے کہا کہ اگر واگنر گروپ ان کی سرحدوں پر پیشہ ور قاتلوں کو متعین کرتا ہے، تو پڑوسی ملکوں کے لئے خطرات بڑھ جائیں گے۔

واضح رہےکہ لیتھوانیا کا دارلحکومت ویلنئیس بیلا روس کی سرحد سے صرف پینتیس کلومیٹر دور ہے۔ یہاں چند روز قبل اکتیس رکنی نیٹو اتحاد کا سربراہ اجلاس منعقد ہوا تھا۔ جس کا مقصد یہ جائزہ لینا بھی تھا کہ روس کی کسی ممکنہ جارحیت کا جواب دینے کے لئے طویل اور قلیل مدت میں نیٹو اتحاد کے پاس کتنی تعداد میں افواج اور کتنا سازو سامان ہونا چاہئیے۔اس اجلاس میں امریکہ کے صدر بائیڈن نے بھی شرکت کی تھی۔

لتھوانیا اپنی سرزمین پر نیٹو دستوں کی مستقل موجودگی کا خواہش مند ہے۔

بیلا روس اور واگنر گروپ کے فوجی مشق کے دوران ایک ڈرون استعمال کرتے ہوئے۔ 20 جولائی2023 فوٹو اے پی
بیلا روس اور واگنر گروپ کے فوجی مشق کے دوران ایک ڈرون استعمال کرتے ہوئے۔ 20 جولائی2023 فوٹو اے پی

روس اور واگنر گروپ کے تعلقات کا پس منظر

یاد رہے کہ روس میں گزشتہ ماہ کی تئیس تاریخ کو پریگوزن کی قیادت میں ہونے والی مختصر بغاوت سے قبل واگنر گروپ کے فوجی مشرقی یوکرین میں روسی فوجیوں کے شانہ بشانہ لڑ چکے ہیں۔ 2014 میں جب سے پریگوزن نے یہ نجی فوج تشکیل دی ہے اس کے فوجیوں کو شام اور متعدد دیگر افریقی ملکوں میں بھی تعینات کیا گیا تھا۔

برطانوی حکومت نے جمعرات کے روز واگنر گروپ کے 13 فوجیوں پر افریقہ میں مبینہ طور پر شہریوں پر حملوں اور انسانی حقوق کی دوسری خلاف ورزیوں کی بنا پر اثاثے منجمد کرنے کے علاوہ سفری پابندیاں عائد کی ہیں ۔

23 جون کو شروع ہوکر اگلے دن ختم ہونےوالی بغاوت کے دوران پریگوزن کے کرائے کے فوجیوں نے روس کے جنوبی شہر روسٹوف آن ڈان میں فوجی ہیڈ کوارٹرز پر قبضہ کر لیا تھا اور پھر ماسکو کے اندر 200 کلومیٹر تک داخل ہو گئے۔

روسی واگنر گروپ کا ایک فوجی ایک نامعلوم مقام پر رکھے گھے توپخانے کے سسٹمز کے ساتھ، فوٹ اے پی 12 جولائی 2023
روسی واگنر گروپ کا ایک فوجی ایک نامعلوم مقام پر رکھے گھے توپخانے کے سسٹمز کے ساتھ، فوٹ اے پی 12 جولائی 2023

واگنر کے سربراہ نے اس بغاوت کو روس کے اعلیٰ ترین فوجی راہنماؤں کی معزولی کے لئے انصاف کا مارچ قرار دیا تھا ۔ واگنر کے فوجیوں کو ماسکو کی طرف پیش قدمی کے دوران معمولی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ ا نہوں نے کم از کم چھ فوجی ہیلی کاپٹر اور ایک کمانڈ پوسٹ ائیر کرافٹ کو مار گرایا تھا اور کم از کم چھ فضائی کارکن ہلاک کر دیے تھے۔

مبصرین نےاس بغاوت کو روسی صدر ولادی میر پوٹن کی 23سالہ حکمرانی کے لئے انتہائی سنگین خطرہ قرار دیا تھا، اس سے ان کی حکومت کی کمزوری نمایاں ہوئی تھی۔

بیلا روس کے صدر الیگزینڈر لوکا شینکو کی ثالثی میں ہونےوالے ایک معاہدے کے تحت پریگوزن نے اپنے فوجیوں کو بغاوت کے چوبیس گھنٹوں کے اندر واپس ان کے کیمپوں میں جانے کا حکم دیا تھا۔ معاہدے کے تحت بغاوت کے خاتمے کے بدلے پریگوزن اور اس کے جنگجووں کو عام معافی اور بیلا روس منتقل ہونے کی اجازت دی گئی تھی۔

( اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے)

XS
SM
MD
LG