یوکرین پر روسی حملے کے پاکستان پر کیا اثرات ہو سکتے ہیں؟
پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں جمعرات کو دن کا آغاز روس کے یوکرین پر حملے کی خبر سے ہوا جس کے بعد نہ صرف عالمی کاروباری منڈیوں میں اُتار چڑھاؤ دیکھا جا رہا ہے بلکہ تیل کی قیمتوں میں مزید اضافے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔
روس نے یوکرین پر حملہ ایسے وقت میں کیا ہے جب پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان دو روزہ سرکاری دورے پر ماسکو میں موجود ہیں۔
وزیرِ اعظم عمران خان یہ واضح کر چکے ہیں کہ پاکستان کسی بھی تنازع کے فوجی حل کے حق میں نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس تنازع میں فریق بنے گا۔ تاہم بعض مبصرین کے مطابق اس جنگ کے سیاسی اثرات سے زیادہ پاکستان پر اس کے معاشی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
پاکستان کا شمار دنیا کے اُن ممالک میں ہوتا ہے جو اپنی مقامی ضروریات پوری کرنے کے لیے دنیا کے دیگر ممالک کے علاوہ روس اور یوکرین سے مختلف اشیا اور اجناس درآمد کرتے ہیں۔
معاشی ماہرین ان خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ اگر یوکرین جنگ طول پکڑتی ہے تو پہلے سے ہی مہنگائی کی چکی میں پسنے والی پاکستانی قوم کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافے کا لامحالہ اثر پاکستان پر بھی پڑے گا۔
یوکرین کا روس سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا اعلان
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے ایک ٹوئٹ میں روس سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ہر اس شخص کو مسلح کرے گی جو اپنے ملک کا دفاع کرنا چاہتا ہے۔
ہتھیاروں سے سرحدیں بدلنے کا کوئی اقدام قابل قبول نہیں، ترکی
ترکی نے یوکرین پر روس کے حملے کو ’غیر منصفانہ اور غیرقانونی‘ قرار دیتے ہوئے فوری کارروائی روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ترک وزارتِ خارجہ نے اپنے بیان میں کہا ہے روس کا حملہ قابلِ قبول نہیں ہے اور ترکی انہیں مسترد کرتا ہے۔
بیان میں روس کی کارروائی کو منسک معاہدے اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔
ترکی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ روس کا حملہ خطے اور عالمی امن کے لیے خطرہ ہے۔ ترکی ہتھیاروں کے ذریعے سرحدیں تبدیل کرنے کے ہر اقدام کی مخالفت کرے گیا۔
لتھونیا میں ہنگامی حالات کا نفاذ
روس اتحادی بیلاروس کے ہمسایہ ملک اور نیٹو کے رکن لیتھونیا نے ملک میں ہنگامی حالات کے نفاذ کا اعلان کردیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق لتھونیا کے صدر گتانا نوسیدا نے جمعرات کو ہنگامی حالات کے نفاذ کے حکم نامے پر دستخط کیے ہیں۔
ہنگامی حالات کے نفاذ کے بعد سیکورٹی اہل کاروں کو سرحدی علاقوں میں گاڑیوں، آمد و رفت کرنے والے لوگوں اور سامان کی تلاشی کے اضافی اختیارات حاصل ہوگئے ہیں۔