پاکستان کے صوبۂ بلوچستان میں حالیہ دنوں میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ تجزیہ کار اس اضافے کی بڑی وجہ افغانستان کی صورتِ حال کو قرار دے رہے ہیں۔
انسدادِ دہشت گردی پولیس نے پیر کو کراچی سے داعش سے تعلق کے شبہے میں دو افراد کو بھی گرفتار کیا ہے جن کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ اُنہیں افغانستان میں تربیت دی گئی اور وہ ماضی میں کالعدم تنظیم لشکرِ جھنگوی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طالبان کے کنٹرول کے بعد قندھار سمیت مختلف علاقوں میں چھپے ہوئے بلوچ علیحدگی پسند گروپ اور داعش کے سرکردہ افراد پاکستان واپس آ گئے ہیں اور ان لوگوں نے کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔
پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے ان دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں بھی اضافہ کر دیا ہے اور گزشتہ روز ہونے والی ایک کارروائی کے دوران داعش بلوچستان کا مقامی امیر ممتاز عرف پہلوان ایک آپریشن کے دوران ہلاک کر دیا گیا تھا۔
پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے چند روز قبل ایک ہی حملے میں داعش سے تعلق رکھنے والے 11 افراد کو ہلاک کرنے کا دعویٰ بھی کیا تھا۔
پاکستان کے وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد نے بھی بلوچستان میں داعش کی موجودگی کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے خلاف کارروائیاں جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے حالیہ دنوں میں ایک انٹرویو میں پاکستان کو درپیش خطرات میں داعش، بلوچستان کی علیحدگی پسند تنظیموں اور کالعدم تحریکِ طالبان کی نشاندہی کی تھی۔
بلوچستان میں حملوں میں اضافہ
بلوچستان حکومت کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق صرف اگست میں دہشت گردی کے 41 واقعات ہوئے جن میں سب سے زیادہ 16 حملے مکران ڈویژن میں ہوئے۔
بلوچستان میں فورسز میں سب سے زیادہ فرنٹیئر کور (ایف سی) کو نشانہ بنایا گیا۔ ان کے خلاف 14 حملے کیے گئے جب کہ عام شہریوں پر 20 حملے ہوئے۔ چینی شہریوں اور پاکستان فوج کے خلاف ایک ایک حملہ کیا گیا۔
بلوچستان میں رواں برس اب تک دہشت گردی کے واقعات میں 25 سے زائد سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ ہلاک ہونے والے دہشت گردوں کی تعداد 40 سے زائد ہے۔
پانچ ستمبر کو کوئٹہ مستونگ قومی شاہراہ پر فرنٹیئر کور کی چیک پوسٹ کے قریب خود کش حملے کے نتیجے میں چار اہل کار ہلاک اور 21 زخمی ہو گئے تھے۔ اس حملے کی ذمے داری کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان نے قبول کی تھی۔
کیا علیحدگی پسندوں اور انتہا پسندوں کا اتحاد ہوگیا ہے؟
تجزیہ کار عامر رانا کہتے ہیں کہ کوئٹہ میں سرینا ہوٹل میں ہونے والے دھماکے کے بعد اس بارے میں شک ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کالعدم تحریکِ طالبان اور بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کے درمیان اتحاد ہوگیا ہے۔ لیکن اب تک اس بارے میں کوئی واضح ثبوت موجود نہیں ہے نہ ہی کسی تنظیم کی طرف سے ایسا دعویٰ کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اتحاد تو نظر نہیں آ رہا البتہ بلوچ علیحدگی پسندوں کے طریقۂ کار میں تبدیلی نظر آ رہی ہے۔
اُن کے بقول ابھی کچھ ویڈیوز سامنے آئی ہیں جن میں خود کش حملہ آور تیار کیے جا رہے ہیں۔ ان سے نظر آرہا ہے کہ علیحدگی پسند تنظیمیں ان کے حملوں کے طریقوں کو استعمال کر رہی ہیں اور ان سے متاثر ہیں۔ لیکن اس بات کے ثبوت سامنے نہیں آ رہے کہ ان کا کوئی اتحاد ہوا ہے یا نہیں۔
اسلام آباد کی قائدِ اعظم یونی ورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر اور اسکول آف پولیٹکس اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر فرحان حنیف صدیقی کہتے ہیں کہ ان مذہبی انتہا پسند تنظیموں اور علیحدگی پسند تنظیموں کے درمیان اتحاد کا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا۔
ان کے بقول ابھی تک کوئی ایسا اتحاد نہیں ہے۔ افغانستان کی صورتِ حال کی وجہ سے روزانہ کی بنیادوں پر چیزیں تبدیل ہو رہی ہیں۔ ابھی تحریکِ طالبان کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کس طرح سے کام کریں گے۔
افغانستان میں تبدیلی کے اثرات
تجزیہ کار اور صحافی ضیا الرحمٰن کہتے ہیں کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد قندھار میں بڑی تعداد میں داعش اور دیگر تنظیموں کے لوگ موجود تھے۔ لیکن طالبان کے آنے کے بعد سرکردہ افراد وہاں سے بھاگے اور پاکستان ایران سرحد کے قریبی علاقوں میں پہنچ گئے ہیں۔
عامر رانا حملوں میں اضافے کے حوالے سے کہتے ہیں کہ بلوچستان میں خزاں کے مہینوں میں حملوں میں تیزی دیکھنے میں آتی ہے لیکن حملوں کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوا ہے۔ لیکن ان حملوں میں دہشت گردوں کی مہارت بڑھ رہی ہے جس سے نقصان زیادہ ہوتا جا رہا ہے۔
ان کے بقول سیکیورٹی فورسز دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کر رہی ہیں اور کئی آپریشنز کے نتیجے میں بڑی تعداد میں دہشت گردوں کو ہلاک بھی کیا گیا ہے۔
کیا داعش کا خطرہ بڑھ رہا ہے؟
ضیاالرحمن کا کہنا تھا کہ داعش کا حالیہ عرصے میں اثر ورسوخ بڑھا ہے لیکن اس کی بڑی وجہ پاکستان میں لشکرِ جھنگوی اور دیگر انتہا پسند گروپس کے ساتھ اس کے بڑھتے ہوئے روابط ہیں۔
بلوچستان میں داعش کی موجودگی کے حوالے سے عامر رانا کا کہنا تھا کہ ان کی مخصوص پاکٹس ہیں اور ان علاقوں میں وہ ایک عرصہ سے کام کر رہے ہیں۔
عامر رانا کا کہنا ہے کہ ان کا نیٹ ورک بھی موجود ہے جن میں ان کے مطابق مستونگ ، ڈیرہ مراد جمالی اور دیگر علاقے شامل ہیں۔ یہ نیٹ ورک اور ان کے ہمدرد یہاں پہلے سے موجود ہیں جس کی وجہ سے ان کو حملے کرنے میں آسانی رہتی ہے۔
گوادر میں قائد اعظم کے مجسمے پر حملے پر عامر رانا کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی زیارت ریزیڈنسی پر حملہ کیا گیا کیوں کہ ملک سے منسلک نشانیوں پر حملوں سے ان دہشت گرد تنظیموں کے کام کو اہمیت ملتی ہے اور یہ تنظیمیں ایسا ہی چاہتی ہیں۔