رسائی کے لنکس

قیدیوں کی ٹیلیفون کالیں سننے والے مصنوعی ذہانت کےنظام پر پابندی لگانے کا مطالبہ


کیلی فورنیا کی جیل جہاں سزائے موت کے قیدی بند ہیں (فائل فوٹو)
کیلی فورنیا کی جیل جہاں سزائے موت کے قیدی بند ہیں (فائل فوٹو)

آٹھ ریاستوں کی دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ قید خانوں اور جیل کے حکام 'ویرس' نامی نگرانی کرنے والا سافٹ ویر استعمال کرتے رہے ہیں، جس کے ذریعے قیدیوں کی فون کالز کو مانیٹر کیا جاتا ہے

حقوق انسانی سے متعلق درجنوں گروپوں نے مطالبہ کیا ہے کہ امریکی قیدیوں کی ٹیلیفون پر ہونے والی گفتگو کو خفیہ طور پر سننے والے مصنوعی ذہانت کے ایک نظام پر پابندی لگائی جائے۔ یہ مطالبہ تھامس رائٹرز فاونڈیشن کی ایک تحقیق کےبعد کیا گیا ہے جس میں قیدیوں کےحقوق کی خلاف ورزی کےخطرے کی نشاندہی کی گئی ہے۔

آٹھ ریاستوں کی دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ قید خانوں اور جیل کے حکام 'ویرس' نامی نگرانی کرنے والا سافٹ ویر استعمال کرتے رہے ہیں، جس کے ذریعے قیدیوں کی فون کالز کو مانیٹر کیا جاتا ہے۔

کیلیفورنیا میں قائم 'لیو ٹیکنالوجیز' نے، جو 'ویرس' نامی نظام کو چلاتی ہے، کہا ہے کہ اس نے امریکی قید خانوں اور جیلوں سے کی جانے والی اور وہاں آنے والی تین کروڑ منٹ کی کالیں اسکین کی ہیں۔ اور اس نے اپنے اس نظام کو جرائم کے خلاف ایک ہتھیار اور قیدیوں کو محفوظ رکھنے میں مدد دینے کا طریقہ بتایا ہے۔

لیکن سول اور ڈیجیٹل رائٹس کے ایک اتحاد کا کہنا ہے کہ اس قسم کی نگرانی اس وقت اکثر قانونی حدود سے نکل جاتی ہے جب اس کا ہدف وہ بات چیت ہو جس کا تعلق جیل کی سیکیورٹی اور تحفظ کے معاملات یا ممکنہ طور پر جرائم کی سرگرمیوں سے نہ ہو۔

گروپ نے ایک مشترکہ خط میں لکھا ہے کہ اس نگرانی سے ان امریکی قیدیوں کے حقوق متاثر ہوتے ہیں جن میں سے بہت سوں کو ابھی سزا بھی نہیں ہوئی اور وہ اپنا دفاع کر رہے ہیں۔ان کے خاندانوں، دوستوں اور پیاروں کے حقوق بھی متاثر ہوتے ہیں۔

اس ضمن میں چار مختلف خطوط ریاست نیویارک کے اٹارنی جنرل کے دفتر، ریاستی انسپکٹر جنرل اور وفاقی محکمہ انصاف کو بھیجے گئے ہیں۔

وفاقی محکمہ انصاف نے نیویارک کی سفولک کاونٹی کے شیرف آفس کو نگراں نظام کے ایک پائلٹ پروگرام پر عمل کےلیے سات لاکھ ڈالر کی امداد دی ہے۔

انڈر شیرف کیٹا لینا نے جو اس کاؤنٹی میں 'ویرس' پروگرام چلانے میں مدد دیتے ہیں تھامس رائٹرز فاونڈیشن کو بتایا کہ یہ نظام جیل کے حکام کو ان لوگوں کے بارے میں جو خود کشی کا رجحان رکھتے ہیں اور قیدیوں میں موجود گینگ ممبرز کی نشاندہی کے سلسلے میں بہت اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے ذریعے زندگیاں بچائی جاتی ہیں۔

وفاقی محکمہ انصاف کے ایک ترجمان نے کہا کہ محکمہ ان ٹیکنالوجی پروگراموں پر نظر ثانی کر رہا ہے جنہیں وفاقی فنڈنگ ملتی ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ان سے پبلک سیفٹی میں اضافہ بھی ہو اور آئینی حقوق کا احترام بھی ہو۔

نیویارک اسٹیٹ انسپکٹر جنرل کے ایک ترجمان نے ای میل پر اپنے تبصرے میں کہا کہ خط کا جائزہ لیا جائے گا اور ان شکایات کی بھرپور تحقیقات کی جائے گی۔ جو بیان کی گئی ہیں۔پچاس سے زیادہ ایڈو کیسی گروپ اس مہم کا حصہ ہیں۔

حقوق انسانی کے گروپ اصرار کرتے ہیں کِہ قید خانوں اور جیلوں میں نگرانی کے آلات میں توسیع کو روکا جائے، کیونکہ، بقول ان کے، یہ نسلی تعصب پیدا کر سکتے ہیں اور پرائویسی سے متعلق حقوق کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، جبکہ ان کی کامیابی کا کوئی واضح ثبوت بھی موجود نہیں ہے۔

(خبر کا مواد رائیٹرز سے لیا گیا ہے)

XS
SM
MD
LG