امریکہ میں کانٹے دار وسط مدتی انتخابات کے حتمی نتائج آنے میں اگرچہ مزید کچھ دن درکار ہوں گے۔ مگر تازہ جائزے ظاہر کرتے ہیں کہ حزبِ اختلاف کی ری پبلکن پارٹی جنوری میں فعال ہونے والے نئے ایوانِ نمائندگان میں عددی برتری حاصل کرنے کے قریب پہنچ گئی ہے۔
برسرِاقتدار ڈیموکریٹک پارٹی پہلےہی کانگریس کے دوسرے ایوان یعنی سینیٹ میں اکثریت حاصل کرچکی ہے۔
ری پبلکنز اب تک 435 رکنی ایوان نمائندگان میں 212 نشستوں کے ساتھ ڈیموکریٹس پر سبقت حاصل کر چکے ہیں۔
ڈیمو کریٹس اب تک 204 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ ایوان میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے کسی بھی پارٹی کو 218 نشستیں درکار ہوتی ہیں۔
انتخابی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بقیہ 19 غیر طے شدہ مقابلوں میں ووٹوں کی گنتی جاری ہے جہاں زیادہ تر ری پبلکنز کا پلڑا بھاری دکھائی دیتا ہے۔
اگر ان نشستوں پر ری پبلکنز کامیاب ہوجاتے ہیں تو انہیں امریکی کانگریس کے ایوانِ نمائندگان میں حکمران جماعت پر عددی برتری حاصل ہوجائے گی۔
امریکہ کے ڈیموکریٹک صدر جو بائیڈن نے انڈونیشیا میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران ری پبلکن پارٹی کے حق میں اس رجحان کو تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''مجھے لگتا ہے کہ ہم ایوان میں بہت قریب آنے والے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ بہت قریب ہونے والا ہے۔'' ساتھ ہی انہوں نے اس بات کا اظہار بھی کیا کہ انہیں نہیں لگتا کہ ڈیموکریٹس ایوان پر میں اپنی برتری رکھ پائیں گے۔
امریکی انتخابات میں لوگ ڈاک کے ذریعے بھی ووٹ ڈالتے ہیں البتہ ان ووٹوں کی گنتی میں مختلف ریاستی قوانین اور قواعد کے مطابق تصدیقی عمل اور دیگر تقاضوں کی وجہ سے کئی دن لگ جاتے ہیں۔ اس لیے حتمی و سرکاری نتائج کے مطابق ری پبلکنز کی ایوانِ نمائندگان میں اکثریت کی تصدیق ہونے کے لیے مزید وقت درکار ہوگا۔
مبصرین کے نزدیک اس بات کا امکان ہے کہ ایوان میں برتری حاصل کرنے کے بعد ری پبلکنز صدر بائیڈن کی اپنی مدتِ صدارت کے پہلے دو برسوں کے دوران کیے گئے اقدامات پر "انتظامی غلطیوں" کے عنوان سے تحقیقات کا آغاز کرسکتے ہیں۔
ان مسائل میں گزشتہ سال افغانستان سے امریکی فوج کے بے ہنگم انخلا اور ہزاروں تارکین وطن کی میکسیکو کی سرحد سے جاری امریکہ آمد شامل ہو سکتے ہیں۔
ایوان نمائندگان میں ری پبلکنز کی اکثریت ان کی پارٹی کے لیے سینیٹ کے ڈیموکریٹس اور وائٹ ہاؤس کے ساتھ حکومتی اخراجات، موسمیاتی تبدیلی کی پالیسیوں اور یوکرین کے لیے روس کے خلاف جنگ کے لیے جاری امداد اوردیگر اہم مسائل پر بات چیت میں شامل ہونے کی راہ ہموار کرے گی۔
گزشتہ ہفتے ہونے والے وسط مدتی انتخابات میں ڈیموکریٹس سینیٹ پر اپنا معمولی کنٹرول برقرار رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔ سینیٹ کے 100 رکنی ایوان میں انہیں 50 ویں نشستیں حاصل ہوچکی ہیں۔
یاد رہے کہ آئین کی رو سے نائب صدر کاملا ہیریس سینیٹ کی پریزائیڈنگ آفیسر کے طور پر ڈیموکریٹک ایجنڈے کے لیے وقتاً فوقتا متنازع قانون سازی پر "ٹائی بریکنگ" ووٹ ڈال سکتی ہیں۔
اس وقت تک ڈیموکریٹس کو سینیٹ میں 49 کے مقابلے میں50 کی برتری حاصل ہے۔ اس کے علاوہ ڈیموکریٹک سینیٹر رافیل وارنوک کو جارجیا میں چھ دسمبر کو اپنے ریپبلکن حریف سابق کالج اور پروفیشنل فٹ بال اسٹار ہرشل واکر کے خلاف دوبارہ الیکشن کا سامنا ہے۔
جہاں تک ایوان نمائندگان کا تعلق ہے تو زیادہ تر امریکی سیاسی تجزیہ کار یہ پیش گوئی کر رہے ہیں کہ جب ووٹوں کی باقی ماندہ نشستوں کی دوڑ میں گنتی کی جائے گی، تو ری پبلکنز بہت ہی کم اکثریت حاصل کرسکیں گے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ری پبلکنز دیموکریٹس کی 213 سے 216 کے مقابلے میں 219 سے 222 نشستوں کے ساتھ اکثریت حاصل کرسکتے ہیں جو کہ 30نشستوں کی پیش گوئی سے کہیں کم ہوگی۔
بائیڈن نے انڈونیشیا کے شہر بالی میں دنیا کی 20 سب سے بڑی معیشتوں کے سربراہی اجلاس سے قبل کمبوڈیا میں وسط مدتی انتخابات کے نتائج کے حوالے سے صحافیوں کو بتایا کہ ہم نے مشکلات کو شکست دی ہے اور وہ اچھا محسوس کر رہے ہیں جب کہ انہیں اگلے دو برسوں کا انتظار ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ منگل کے انتخابات سے قبل امریکی سیاسی رائے دہندگان اور تجزیہ کاروں نے بڑے پیمانے پر ایوان میں ری پبلکن کی جیت کی اور سینیٹ پر بھی ممکنہ اکثریت کی پیش گوئی کی تھی۔
سینیٹ کے نیو یارک سے تعلق رکھنے والے ڈیموکریٹک رہنما چک شومر نے ایوان کے اکثریتی رہنما رہنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے نتائج کو ڈیموکریٹس اور ان کے ایجنڈے کے لیے حمایت قرار دیا۔
چک شومر نے کہا کہ ری پبلکنز نے رائے دہندگان کو انتہا پسندی اور "منفی" انداز کے باعث خود سے دور کردیا۔ اس میں کچھ ری پبلیکن امیدواروں کا یہ غلط اصرار بھی شامل ہے کہ 2020 کے انتخابات میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو دھاندلی سے ہرایا گیا۔ شمر نے کہا کہ''امریکہ نے دکھایا کہ ہم اپنی جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں۔''
بعض ری پبلکنز نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایسے امیدواروں کی حمایت کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے جو انتخابی عمل پر بلا ثبوت سوالات اٹھاتے ہیں۔ ان میں سے کئی امیدوار کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ٹرمپ کی ان امیدواروں کے لیے حمایت بڑی حد تک اس بات پر مبنی تھی کہ آیا وہ ان کے دعوے سے متفق ہیں کہ انہیں دھوکہ دہی سے 2020 کے انتخابات میں مزید چار سالہ مدت سے محروم کیا گیا۔
کچھ ری پبلکنز نے نوٹ کیا ہے کہ پارٹی کی سیاست کے سب سے بڑے نام کے طور پرٹرمپ نے اپنی مدت صدارت کے وسط میں ہونے والے 2018 کے وسط مدتی انتخابات، 2020 میں کے صدارتی انتخابات اور اب ایک بار پھر 2022 کے مڈ ٹرم مقابلے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کی ہے۔
پچھلے ہفتے کے وسط مدتی انتخابات میں ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی جاری ہونے کے باوجود ٹرمپ نے اشارہ دیا ہے کہ وہ منگل کو 2024کا صدارتی انتخاب لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ٹرمپ کو سن 2020 کے الیکشن نتائج کو الٹنے کی کوشش کے الزام میں وفاقی اور ریاستی فوجداری تحقیقات کا سامنا ہے۔ان تحقیقات میں یہ جاننے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ آیا ٹرمپ نے چھ جنوری 2021 کو واشنگٹن میں امریکی کانگریس کی عمارت پر ہنگامہ آرائی کرنے کے لیے اپنے حامیوں کو اکسایا؟ اور کیا وہ صدارتی عہدہ چھوڑنے کے بعد غیر قانونی طور پر خفیہ قومی سلامتی کے دستاویزات اپنے ساتھ فلوریڈا میں سمندر کے کنارے اپنی بڑی رہائش گاہ لے گئے تھے؟
امریکہ کے 45ویں صدرٹرمپ کے خلاف اب تک کوئی مجرمانہ الزام نہیں لگایا گیا ہے۔