سپریم کورٹ آف پاکستان میں عدالت عظمیٰ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائیکورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف دائر حکومتی ریفرنسز کے پہلے دن کی سماعت مکمل ہو گئی۔ لیکن، سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف سے ان ریفرنسز کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے یا جج صاحبان کو نوٹسز جاری کرنے کے حوالے سے سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف سے رات گئے تک کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔
دو ججز کے خلاف حکومتی ریفرنس پر سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس جمعے کے روز دن دو بجے شروع ہوا جو تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس کےکے آغا کے خلاف بھجوائے گئے حکومتی ریفرنسز پر سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں ہوا۔ اجلاس میں حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل پیش ہوئے جنہوں نے سماعت مکمل ہونے کے بعد میڈیا کے سوالوں کے باوجود کوئی جواب دینے سے انکار کیا۔
سپریم جوڈیشل کونسل میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید، چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ وقار سیٹھ اور چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ احمد علی شیخ شامل ہیں۔
سپریم جوڈیشل کونسل کی تمام کارروائی ان کیمرہ ہوتی ہے جس میں وکلا یا میڈیا کو جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ لیکن، عموماً ریفرنس کی سماعت مکمل ہونے کے کچھ دیر کے بعد اعلامیہ جاری کر دیا جاتا ہے، جس میں تمام تر تفصیلات فراہم کر دی جاتی ہیں۔ لیکن ان دونوں ریفرنسز کے حوالے سے جمعے کی رات گئے کوئی پریس ریلیز جاری نہیں ہوئی۔
وکلا کا احتجاج
دوسری جانب ججز کے خلاف ریفرنس کی سماعت کے موقعے پر وکلا کی جانب سے ہڑتال کی گئی۔ کراچی سٹی کورٹ میں وکلا کے ایک دھڑے نے گیٹ کو تالے لگا دیے جب کہ بلوچستان ہائیکورٹ میں وکلا کی جانب سے دھرنا دیا گیا۔ دھرنے میں بلوچستان بار کونسل، بلوچستان ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن سمیت مختلف وکلا تنظیمیں شریک ہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسویسی ایشن کی کال پر ہڑتال کی گئی اور وکلا نے سپریم کورٹ کے داخلی دروازے پر دھرنا دیا۔ اس موقع پر سپریم کورٹ بار کے صدر امان اللہ کنرانی نے علامتی ریفرنس کو نظر آتش بھی کیا۔
صدر سپریم کورٹ بار امان اللہ کنرانی کا کہنا تھا کہ ’’حکومت نے بد نیتی سے سپریم کورٹ کے جج کے خلاف ریفرنس دائر کیا۔ جعلی ریفرنس کی کوئی اہمیت نہیں۔ اس کو دکھایا تک نہیں گیا۔ جج کی کردار کشی اور میڈیا ٹرائل کیا جا رہا ہے جو سپریم جوڈیشل کونسل کے لیے چیلنج ہے‘‘۔
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل ریاض حنیف راہی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’بار اور بینچ کے درمیان فاصلہ ہونا چاہیے بصورت دیگر مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اگر کسی جج کے خلاف کوئی شکایت ہے تو کارروائی کی جائے۔ لیکن، پہلے سے دائر ساڑھے تین سو سے زائد ریفرنسز پر بھی کارروائی کی جائے۔‘‘
وکلا تحریک میں نمایاں کردار ادا کرنے والے وکیل علی احمد کرد نے کہا کہ ’’وکلا تقسیم نہیں ہیں۔ وکلا کی تمام تنظیموں نے اس ہڑتال اور اجتجاج کا اعلان کیا ہے اور تمام وکلا اس پر متفق ہیں کہ یہ ریفرنس حکومتی بدنیتی پر مبنی ہیں‘‘۔
انہوں نے کہا کہ ’’عدالتیں ظلم اور ناصافی کی دادرسی کے لیے ہوتی ہیں۔ لیکن جب عدالتوں میں ہی طاقت استعمال کی جائے اور حکومتیں اپنی مرضی کرتے ہوئے ججز کو نکالیں گی تو یہ عدالتیں صرف خوشنما عمارتیں رہ جائیں گی۔ چند وکلا ماضی میں بھی ہمارے ساتھ نہ تھے اور آج بھی نہیں ہیں‘‘۔
سپریم جوڈیشل کونسل کام کیسے کرتا ہے
سپریم جوڈیشل کونسل میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے علاوہ سپریم کورٹ کے ہی دو سینئر جج اور ملک کی پانچوں ہائیکورٹس کے دو سینئر موسٹ چیف جسٹس شامل ہوتے ہیں۔ پانچ ججز پر مشتمل اس عدالت میں اٹارنی جنرل حکومت کی طرف سے پیش ہوتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے سینئر صحافی اور انگریزی اخبار ڈان سے منسلک ناصر اقبال نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلا مرحلہ یہ دیکھنے کا ہے آیا یہ ریفرنس قابل سماعت بھی ہیں یا نہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’’اگر یہ ناقابل سماعت ہوئے تو اسی وقت یہ تمام ریفرنس خارج ہوجائیں گے۔ لیکن اگر یہ قابل سماعت قرار پاتے ہیں تو اس پر دونوں جج صاحبان کو نوٹسز جاری کر دیے جائیں گے۔ اس کے بعد جج صاحبان خود یا پھر اپنے وکیل کے ذریعے باقاعدہ پیش ہو کر عدالتی کارروائی میں اپنا جواب دیں گے۔ یہ عدالت پر منحصر ہے کہ وہ کتنے عرصے میں اس کیس کو مکمل کرتی ہے‘‘۔
ججز پر الزام کیا ہے؟
سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر اہلیہ اور بیٹے کی لندن میں جائیداد چھپانے کا الزام ہے جس پر حکومت کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل میں ججز کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا ہے۔ ایسا ہی الزام جسٹس کے کے آغا پر بھی ہے کہ انہوں نے اپنی لندن میں موجود جائیداد کو اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر عارف علوی کو لکھے گئے خط میں اس جائیداد کے حوالے سے موقف دیا تھا کہ ان کی اہلیہ اور بچے ان کے زیر کفالت نہیں ہیں۔ لہذا، اس جائیداد کو اثاثوں میں ظاہر کرنا ضروری نہیں تھا۔