رسائی کے لنکس

سرخ گوشت کا استعمال نقصان دہ ہے یا نہیں؟


بعض ماہرین کے مطابق بالغ افراد بلا خوف و خطر سرخ گوشت کھا سکتے ہیں۔
بعض ماہرین کے مطابق بالغ افراد بلا خوف و خطر سرخ گوشت کھا سکتے ہیں۔

طبی ماہرین کینسر اور دل کے امراض سے بچنے کے لیے سرخ گوشت کا کم سے کم استعمال تجویز کرتے ہیں۔ لیکن ایک طبی جریدے میں شائع ہونے والی سات ممالک کے ماہرین کی ہدایات کے مطابق بالغ افراد بلا خوف و خطر سرخ گوشت کا استعمال کر سکتے ہیں بشرطیکہ یہ کسی بھی پروسیس سے نہ گزارا گیا ہو۔

سرخ گوشت سے مراد گائے، بھینس، بکری اور بھیٹر وغیرہ کا گوشت ہے جس کی رنگت سرخی مائل ہوتی ہے۔ جب چکن اور مچھلی کے گوشت کو اپنی رنگت اور اس میں شامل اجزا کی وجہ سے سرخ گوشت کے زمرے میں شامل نہیں کیا جاتا۔

سات ممالک کے طبی ماہرین کی اس ریسرچ پر بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ پروسیس شدہ گوشت کھانے میں بھی حرج نہیں ہے۔

دوسری جانب امریکن کالج آف فزیشنز کے جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق ہفتے میں تین بار سرخ گوشت کا کم استعمال ایک ہزار میں سے سات افراد کو کینسر کے ذریعے موت کے منہ میں جانے سے بچا سکتا ہے۔

محققین کے مطابق یہ تعداد بہت کم ہے لہذٰا حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کیا واقعی سرخ گوشت کا استعمال کینسر سے بچاؤ کا سبب بنتا ہے یا نہیں۔

کینیڈا کی ڈلہوزی یونیورسٹی کے پروفیسر براڈلے جانسٹن نے خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کو بتایا کہ سرخ گوشت کے کم استعمال سے کینسر اور دل کے امراض سے بچنے کے بہت کم شواہد ملے ہیں۔ ان کے بقول ہو سکتا ہے کہ اس سے فرق پڑتا ہو اور شاید نہ بھی پڑتا ہو۔

پروفیسر براڈلے جانسٹن کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ فیصلہ عوام پر چھوڑ دینا چاہیے۔ ہمارا کام بس یہ ہے کہ جو ہماری تحقیق ہے وہ عوام کے سامنے لے آئیں۔ ان کے بقول ہم یہ چاہتے ہیں کہ لوگ اپنی خوراک سے متعلق اتنے باشعور ہو جائیں کہ انہیں عالمی اداروں کی ہدایات پر بھروسہ نہ کرنا پڑے۔

محقیق کا کہنا ہے کہ وہ اس کوشش میں ہیں کہ خوراک سے متعلق پرانے نظریات کو تبدیل کر سکیں۔ اور اس ضمن میں انفرادی فوائد کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔

ان سفارشات پر عالمی ادارہ صحت(ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ وہ 30 سال قبل جاری کی گئی سرخ گوشت سے متعلق ایڈوائزری میں کوئی تبدیلی نہیں لائیں گے۔

خیال رہے کہ عالمی ادارہ صحت سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں سرخ گوشت کے کم استعمال کی تجاویز دی جاتی ہیں۔

امریکن کنیسر سوسائٹی میں تعینات ڈاکٹر مرجی مکولوف کا کہنا ہے کہ محقیق نے اپنی ریسرچ میں لوگوں کی انفرادی ترجیحات کو بنیاد بنایا ہے۔

ان کے بقول مثال کے طور پر ہم سب کا اس پر اتفاق ہے کہ ہیلمٹ پہننے سے جان بچائی جا سکتی ہے۔ اب یہ لوگوں پر منحصر ہے کہ کون تازہ ہوا سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہے۔ ظاہر ہے ہیلمٹ نہ پہنے سے بھی بہت سے لوگ حادثات کا شکار نہیں ہوتے۔

وائس آف امریکہ اردو کی سمارٹ فون ایپ ڈاون لوڈ کریں اور حاصل کریں تازہ ترین خبریں، ان پر تبصرے اور رپورٹیں اپنے موبائل فون پر۔

ڈاوًن لوڈ کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

اینڈرائڈ فون کے لیے۔

Android

آئی فون اور آئی پیڈ کے لیے۔

XS
SM
MD
LG