رسائی کے لنکس

لانگ مارچ پر فائرنگ: فوج اور سیاسی قیادت کی مذمت، پی ٹی آئی کارکنوں کا احتجاج


افواجِ پاکستان اور ملک کی سیاسی قیادت نے تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کے لانگ مارچ کے دوران فائرنگ کی مذمت کی ہے جب کہ اس واقعے پر ملک بھر میں پی ٹی آئی کارکن سراپا احتجاج ہیں۔

واقعے کے بعد تحریکِ انصاف نے راولپنڈی، اسلام آباد، کراچی، کوئٹہ، پشاور سمیت ملک کے مختلف شہروں میں اس واقعے کے خلاف احتجاج کیا ہے۔

وزیرِ اعظم پاکستان شہباز شریف نے سماجی میڈیا پر جاری کردہ اپنے بیان میں کہا ہے کہ عمران خان کی ریلی میں فائرنگ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہوں۔ وزیر داخلہ سے واقعے کی فوری رپورٹ طلب کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کا وہ عمران اوردیگر زخمیوں کی جلد صحت یابی کیلیےدعاگو ہیں۔ سیکیورٹی اور واقعے کی تحقیقات میں وفاق پنجاب حکومت سےتمام ممکنہ تعاون کرے گا۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ملکی سیاست میں تشدد کی کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔

وفاقی وزیرِ اطلاعات مریم اورنگزیب کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے اس واقعے کے بعد دورۂ چین سے متعلق آج ہونے والی پریس کانفرنس مؤخر کر دی ہے۔

پاکستان کی افواج کے شعبۂ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ گوجرانوالہ کے نزدیک ہونے والا واقعہ انتہائی قابلِ مذمت ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور واقعے میں زخمی ہونے والے دیگر افراد کی جلد صحت یابی کے لیے دعا گو ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیرِ اعظم نواز شریف اوران کی صاحبزادی مریم نواز نے بھی اپنے بیان میں عمران خان اور ان کے ساتھیوں پر فائرنگ کی مذمت کی ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو اور سابق صدر آصف زرداری نے بھی لانگ مارچ میں فائرنگ کے واقعے پر اظہارِ مذمت کیا ہے۔

تحریکِ انصاف کا ردعمل

سابق وزیرِ اعظم اور چیئرمین تحریکِ انصاف عمران خان کی قیادت میں تحریکِ انصاف کا لانگ مارچ پنجاب کے شہر وزیرِ آباد سے گزر رہا تھا کہ اس موقع پر قافلے میں موجود مرکزی کنٹینر پر فائرنگ ہوئی۔

کنٹینر پر عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما موجود تھے۔لانگ مارچ میں فائرنگ پر تحریکِ انصاف کے رہنماؤں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

تحریکِ انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے جائے وقوعہ پر مجمع سے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ایسا ہوتا آیا ہے کہ پاپولر لیڈرز کو راستے سے ہٹادیا جائے یا ان پر قاتلانہ حملہ کردیا جائے۔انہوں نے کہا کہ عمران خان پر حملہ پاکستان پر حملہ ہے اور اس کا بدلہ لیا جائے گا۔

سوشل میڈیا پر اپنے ایک بیان میں انہوں نے مبینہ حملہ آور کے بیان سے متعلق بھی شبہات کا اظہار کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ مخصوص چینل اور صحافی اس حملے کو کچھ اور رنگ دینا چاہتے ہیں۔ ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے اور ہم ذمے داران کی گردن تک پہنچیں گے۔

تحریک انصاف کی رہنما ڈاکٹر شیریں مزاری اور سابق گورنر سندھ عمران اسماعیل نے الزام عائد کیا ہے کہ وفاقی وزیرِ داخلہ اس واقعے کے ذمے دار ہیں۔

ڈاکٹر شیریں مزاری نے اپنے ٹوئٹ میں کہا ہے کہ رانا ثناء نے عمران خان کو قتل کی دھمکی دی تھی اور آج ہم نے دیکھا کہ قاتلانہ حملہ کردیا گیا۔رانا ثناءاللہ کو فوری طور پر گرفتار کیا جائے۔

ان الزامات پر وزیرِ اطلاعات مریم اورنگزیب نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ عمران خان پر حملہ قابلِ مذمت ہے۔ واقعات کے حقائق سامنے نہ آنے تک غیر ذمے دارانہ بیانات سے گریز کرنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ مبینہ حملہ آور کا بیان گجرات پولیس نے جاری کیا ہے اور وزیرِ اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کو حقائق سامنے لانے چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ واقعے کی تحقیقات کے لیے وفاق صوبائی حکومت سے ہر ممکن تعاون کرنے لیے تیار ہے اور اس کے لیے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے ہدایات جاری کردی ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے مشتعل سپورٹر ، پاکستانی ذرائع ابلاغ کے مطابق، وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ کے گھر باہر نعرے بازی اور پتھراو کر رہے ہیں۔ اس موقع پر پولیس کی نفری ان کے گھر بھجوا دی گئی ہے۔

XS
SM
MD
LG