رسائی کے لنکس

عسکریت پسندوں کی مالی معاونت کا الزام، بھارتی کشمیر کے تاجروں کے خلاف کارروائی


لائن آٓف کنٹرول کے اطراف ٹرک کلیئرنس کا انتظار کر رہے ہیں۔(فائل فوٹو)
لائن آٓف کنٹرول کے اطراف ٹرک کلیئرنس کا انتظار کر رہے ہیں۔(فائل فوٹو)

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں تحقیقاتی اداروں نے چار ایسے تاجروں کے گھروں پر چھاپے مارے ہیں جن پر الزام ہے کہ یہ لائن آف کنٹرول(ایل او سی) کے ذریعے ہونے والی تجارت کو دہشت گردی کے لیے استعمال کرتے تھے۔

بھارت نے رواں سال اپریل میں لائن آف کنٹرول کے اطراف ہر طرح کی تجارت بند کر دی تھی، حکام نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ پاکستان میں موجود بعض عناصر اس تجارت کو دہشت گردی کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ تاہم پاکستان کی جانب سے ان الزامات کی تردید کی گئی تھی۔

بھارت کے تفتیشی ادارے نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی(این آئی اے) کی جانب سے کی گئی اس کارروائی میں بعض اہم دستاویزات اور دیگر مواد قبضے میں لینے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ ان چھاپوں کے دوران این آئی اے کو پولیس اور دیگر سیکورٹی اہل کاروں کی بھی معاونت حاصل رہی۔

حکام کا کہنا ہے کہ این آئی اے کے یہ چھاپے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے بارہ مولہ میں 'ٹیرر فنانسنگ' کی تحقیقات کے سلسلے میں مارے گئے ہیں۔

بھارت نے مئی 2017 سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مبینہ طور پر دہشت گردی کو فروغ دینے کے خدشات کے پیش نظر پاکستان سمیت مختلف ممالک سے رقوم کی غیر قانونی ترسیل کے ذرائع حوالہ یا ہنڈی کے کاروبار پر مکمل پابندی عائد کر دی تھی۔ اس ضمن میں کشمیر میں علیحدگی پسند تحریکوں کے قائدین سمیت تاجروں کو بھی حراست میں لیا گیا تھا جو اس وقت نئی دہلی کی تہاڑ جیل میں قید ہیں۔

مبصرین کے مطابق کشیدگی کے باعث پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت کا حجم بہت کم ہے۔
مبصرین کے مطابق کشیدگی کے باعث پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت کا حجم بہت کم ہے۔

این آئی اے کا کہنا ہے کہ تحقیقات کے دوراں مبینہ 'ٹیرر فنانسنگ' کے تمام پہلوؤں کا باریک بینی سے جائزہ لیا جارہا ہے۔ حکام کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ تحقیقات کے دوران ایل او سی کے اطراف تجارت کے ذریعے اسلحے کی ترسیل کے ثبوت ملے ہیں۔

بھارت کی وزارت داخلہ نے اپریل میں بھارت اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے راستے ہونے والی تجارت معطل کر دی تھی۔ اس ضمن میں اوڑی، چکوٹھی، پونچھ اور راولا کوٹ کے درمیان تجارتی روٹس کو بند کر دیا گیا تھا۔

بھارتی حکام کا کہنا تھا کہ جب تک سخت ریگرلیٹری انتظامات نہیں ہو جاتے، اس وقت تک یہ تجارت بند رہے گی۔

بھارتی فیصلے پر تنقید

تجارت بند کرنے کے بھارتی فیصلے کو دونوں اطراف کی تاجر برادری اور سیاسی قیادت نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

بعض سیاسی رہنماؤں نے الزام لگایا تھا کہ بھارت اس اقدام سے معاشی طور پر کشمیر کو کمزور کرنا چاہتا ہے اور اس کے پیچھے سیاسی عوامل کارفرما ہیں۔

تاجر برادری بھی بھارت کے اس اقدام پر سراپا احتجاج تھی، ان کا کہنا تھا کہ اس اقدام سے ہزاروں لوگ متاثر ہوئے ہیں، جن کا ذریعہ معاش اس تجارت سے وابستہ تھا۔

'حزب المجاہدین اس تجارت کو استعمال کر رہی تھی'

بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ لائن آف کنٹرول(ایل او سی) ٹریڈ ایسوسی ایشن کے صدر ظہور احمد وٹالی کو عسکریت پسندوں کے لیے رقوم جمع کرنے کے الزام میں حراست میں لیا گیا ہے۔

بھارت کی وزارت داخلہ کے مطابق اس تجارت کے ذریعے عسکری تنظیم حزب المجاہدین سب سے زیادہ فائدہ اٹھا رہی تھی۔ کیوں کہ متعدد ٹریڈنگ کمپنیاں اس کے زیر اثر ہیں۔

وزارت داخلہ نے یہ الزام بھی لگایا تھا کہ اس تجارت کے ذریعے منشیات اور جعلی کرنسی کی بھی اسمگلنگ ہوتی تھی، جس کے باعث کشمیر میں نوجوان نشے کے عادی ہو رہے تھے۔ جبکہ متعدد مواقعوں پر اس تجارت کے ذریعے اسلحہ بھی منتقل ہوتا رہا ہے۔

پاکستان کا موقف

پاکستان کی وزارت خارجہ کے وقتاً فوقتاً بیانات سامنے آتے رہے ہیں جن میں ایل او سی کے ذریعے تجارت کی معطلی کی مذمت کی جاتی رہی ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر فیصل نے منشیات، اسلحے کی ترسیل اور جعلی کرنسی کی اسمگلنگ کے الزامات کی سختی سے تردید کی تھی۔

پاکستان اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول(ایل او سی) کے مختلف مقامات پر اکتوبر 2008 میں اعتماد سازی کی فضا کو بہتر بنانے کے لیے تجارت کا آغاز ہوا تھا۔ تاہم لائن آف کنٹرول پر فائر بندی کی خلاف ورزیوں کے باعث یہ تجارت متعدد مواقعوں پر معطل کر دی جاتی تھی۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG