رسائی کے لنکس

محصورغزہ میں ریڈیو کی مانگ میں بے پناہ اضافہ کیوں؟


 رفح میں ایک فلسطینی ریڈیو سن رہا ہے، فوٹو اے ایف پی 19 دسمبر 2023
رفح میں ایک فلسطینی ریڈیو سن رہا ہے، فوٹو اے ایف پی 19 دسمبر 2023

غزہ میں آٹھ اکتوبرکو بڑی جنگ چھڑنےسے پہلے ایک اسٹور کے مالک محمود الداؤدی نے کبھی بھی یہ تصور نہیں کیا تھا کہ ان کے اسٹور میں ایک عرصے سے دھول سے اٹے قصہ پارینہ بن جانے والے ریڈیو سیٹ کی مانگ اتنی بڑھ جائے گی اور وہ بیرونی دنیا سے رابطے کا تقریبأ واحد ذریعہ بن جائیں گے۔

غزہ میں ایک عرصے سے بجلی منقطع ہونا روز مرہ زندگی میں معمول کا ایک حصہ رہا ہے ۔ لیکن محصو رعلاقے کے 24 لاکھ لوگ اسرائیل کی جانب سے بجلی اور ایندھن پر بندش کے بعد طویل ترین دورانیے کے بلیک آؤٹ برداشت کر رہے ہیں۔

ان حالات میں ان کےلیے کمپیوٹرز اور ٹی وی چلانا، ٹیلی فونز کو ری چارج کرنا یا انٹر نیٹ تک رسائی جنریٹرز یا سولر پینلز کے بغیر ناممکن ہو گئی ہے ۔ غزہ کے چند شہری ہی ان سہولیات کی استطاعت رکھتے ہیں۔

لیکن خبریں سننے کے لیے بیٹری سے چلنے والے ریڈیو ہمیشہ سے موجود رہے ہیں۔

غز ہ کے جنوبی سرے، رفح میں واقع اپنے اسٹور سے بات کرتے ہوئے اسکے مالک محمود داؤدی نے اے ایف پی کو بتایا کہ ،" ہمارے پاس ریڈیوز کا ایک پورا اسٹاک موجود تھا لیکن جنگ کے پہلے ہفتےکے بعد ہی ہمارا اسٹاک بالکل ختم ہو گیا۔"

رفح میں ایک عورت اپنے گھر میں اپنے بچوں کے ساتھ ریڈیو سن رہی ہے، فوٹو اے ایف پی 19 دسمبر 2023
رفح میں ایک عورت اپنے گھر میں اپنے بچوں کے ساتھ ریڈیو سن رہی ہے، فوٹو اے ایف پی 19 دسمبر 2023

داؤدی نے کہا ،" اب فون اور انٹر نیٹ کے بغیر ریڈیو ہی حالات حاضرہ کو جاننے کاواحد ذریعہ ہے ۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اس کی بیٹری زیادہ دیر تک چلتی ہے ۔"

جنگ سے پہلے ایک ریڈیو لگ بھگ 25 شیکلز ،( سات ڈالر) کا ہوتا تھا ۔۔ اور اب اس کی قیمت لگ بھگ 60 شیکلز (16 ڈالر) تک ہو چکی ہے۔

33 سالہ داؤدی نے کہا کہ ،" ہم نے تو وہ ٹوٹے پھوٹے ریڈیو بھی دوبارہ بیچ دیے جو لوگوں نے ہمیں واپس کیے تھے۔"

جب دکانوں سے ریڈیو سیٹ ختم ہو گئے تو گاہکوں نے ایسےپرانے ٹیلی فونز کے لیے کہا جن میں ریڈیو اور ٹارچ ہوتی تھیں ۔ یہ رات کو مدد دیتی ہیں۔ داؤدی نے اے ایف پی کو بتایا کہ ، اب ہمارے پاس فون کم پڑ رہے ہیں۔

رفح میں ایک پناہ گزین کیمپ میں ایک فلسطینی دکاندار ریڈیو سن رہا ہے، فوٹو اے ایف پی 19 دسمبر 2023
رفح میں ایک پناہ گزین کیمپ میں ایک فلسطینی دکاندار ریڈیو سن رہا ہے، فوٹو اے ایف پی 19 دسمبر 2023

دور ماضی میں واپسی

ریڈیو کے نئےاسٹاک کا آرڈر دینا ناممکن ہے کیوں کہ علاقے میں صرف محدود سطح کی انسانی ہمدردی کی امداد آسکتی ہے۔

ایک اور اسٹور کے مالک حسین ابو ہاشم نے،جن کے پاس ریڈیو کا اسٹاک ختم ہو گیا ہے کہا ، "لوگ خبریں سننا چاہتے ہیں، وہ یہ سنناچاہتے ہیں کہ گولہ باری کہاں ہو رہی ہے اور وہ اپنے خاندانوں کی خیر و عافیت کا پتہ چلانا چاہتے ہیں۔"

اقوام متحدہ کے مطابق جنگ کے شروع ہونےسے اب تک 19 لاکھ فلسطینی، یعنی لگ بھگ 85 فیصد آبادی اپنے گھر بار چھوڑ کر جا چکی ہے ۔ ان میں سے بہت سے اب علاقے کے جنوب میں عارضی کیمپوں میں رہ رہے ہیں جہاں بنیادی اشیائے ضرورت کافقدان ہے۔

رفح کے ایک کیمپ میں بے سرو سامانی کی صورتحال کی ایک تصویر، فوٹو 18 دسمبر 202
رفح کے ایک کیمپ میں بے سرو سامانی کی صورتحال کی ایک تصویر، فوٹو 18 دسمبر 202

جنوبی شہر خان یونس میں ایک فلسطینی خاتون ام ابراہیم نےاے ایف پی کو بتایا کہ ، "مجھے نہیں معلوم کہ ہمارے ارد گرد کیا ہورہا ہے، حملے کہاں کہاں ہو رہے ہیں، کن گھروں کو نشانہ بنایا گیا ہے ، کون زندہ ہے کون شہید ہو گئے ہیں ۔"

انہوں نے کہا ، "ہم غزہ میں ہر جگہ کی خبریں سننا چاہتے ہیں۔"

جب میرے ریڈیو کی بیٹری ختم ہو جاتی ہے تو میں پورے کیمپ میں پیدل گھومتی ہوں اور دوسرے لوگوں کے ریڈیو پر خبریں سنتی ہوں۔

بی بی سی عربی اور الجزیرہ نے نقل مکانی کرنے والے لوگوں کو تازہ ترین خبریں فراہم کرنے میں مدد کےلیے خصوصی چینلز شروع کر دیے ہیں۔

غزہ کے علاقے رفح میں ایک فلسطینی دکاندار اپنی دکان پر یڈیو سن رہے ہیں ، فوٹو اے ایف پی 19 دسمبر 2023
غزہ کے علاقے رفح میں ایک فلسطینی دکاندار اپنی دکان پر یڈیو سن رہے ہیں ، فوٹو اے ایف پی 19 دسمبر 2023

غزہ کے کچھ شہری ، مثلاً عبرانی زبان بولنے والے 75 سالہ محمد حسونا اسرائیلی ریڈیو اسٹیشنوں سے خبریں سنتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سے انہیں اسرائیل کی جانب سے تازہ ترین خبریں جاننے کا موقع ملتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ" میں اپنے بچوں اور پڑوسیوں کو باخبر رکھتا ہوں ۔"

ان کے خیمےکے باہر 37 سالہ صالح زو روب ا پنے موبائیل فون پر دستیاب ریڈیو اسٹیشنز کے پروگرام سن کر اپنا وقت گزارتے ہیں۔

انہوں نےکہا کہ دنیا جدید ٹکنالوجی کے ساتھ آگے کی طرف بڑھ رہی ہے اور غزہ میں ہم پیچھے کی طرف جا رہے ہیں۔

وہ" ہمیں پتھر کے دور میں واپس لے جار ہے ہیں۔"

اس خبر کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے

فورم

XS
SM
MD
LG