افغانستان کے مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنے اور اس کے لیے امن و مصالحت کے عمل کو بحال کرنے کے لیے پاکستان، افغانستان، چین اور امریکہ پر مشتمل چار فریقی گروپ کا اجلاس پیر کو خلیجی ملک عمان کے دارالحکومت مسقط میں ہوگا۔
اس گروپ کا اجلاس تقریباً ڈیڑھ سال کے تعطل کے بعد ہو رہا ہے جس میں چاروں ملکوں کے سفارت کار افغان مسئلے کے سیاسی حل کے لیے افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے بارے میں تبادلۂ خیال کریں گے۔
پاکستان کی سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ ایک وفد کے ہمراہ اس اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کریں گی۔
یہ اس گروپ کا چھٹا اجلاس ہو گا جو رواں سال اگست میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی افغانستان اور خطے سے متعلق پالیسی کے اعلان کے بعد ہو رہا ہے۔
ذرائع ابلاغ میں آنے والی خبروں کے مطابق افغان طالبان نے اس اجلاس میں اپنے کسی نمائندے کو نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے جمعرات کو معمول کی ہفتہ وار بریفنگ کے دوران صحافیوں کو بتایا تھا کہ اس اجلاس کا مقصد افغانستان میں متحارب فریقین کو مذاکرات کی میز پر لانا ہے، اور ان کے بقول، یہ چار ملکی گروپ کے ارکان کا کام ہے کہ وہ مل کر یہ بات طے کریں کہ اس حوالے سے کیسے پیش رفت کی جاسکتی ہے۔
افغان امور کے ماہر اور سینئر صحافی رحیم اللہ یوسف زئی نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کافی عرصے کے تعطل کے بعد اس گروپ کو بحال کرنا ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔
"امریکہ یا کوئی بھی حکومت اگر یہ مسئلہ بات چیت کے ذریعے حل کرے تو یہ ان کی ترجیح ہو گی۔ صدرٹرمپ کی جو تقریر تھی ظاہر ہے اس میں فوجی حل کی بات کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ طالبان کو شکست دیں گے اور کمزور کریں گے تو پھر وہ بات چیت کے لیے تیار ہوں گے اور پھر بعد میں بات چیت کے ذریعے حل نکالنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن اگر یہ کام پہلے ہو جائے اور کوئی امید پیدا ہو تو اس سے بہتر کیا بات ہو گی۔"
تاہم رحیم اللہ کے نزدیک بھی طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانا ایک چیلنج ہوگا۔
"میرے خیال میں امریکہ اور افغانستان نے جو رضامندی دکھائی ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ چار ملکی فورم کے ذریعے معاملات آگے بڑھیں تو اس کے بعد یہ نظر آتا ہے کہ پاکستان اور چین سے کہا جائے گا کہ وہ طالبان کو مذاکرات کے میز پر لائیں۔ شاید امریکہ اور افغانستان یہ بھی مطالبہ کریں کہ اگر طالبان نہیں مانتے تو ان کے خلاف فوجی کارروائی کی جائے۔"
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کے مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنا ایک آسان کام نہیں۔ تاہم ان کے بقول چار ملکی فورم اس حوالے سے موثر ہو سکتا ہے اور اس کے لیے اسے پائیدار بنیادوں پر بحال رکھنا ضروری ہے۔
واضح رہے کہ افغانستان کے تنازع کا پر امن سیاسی حل تلاش کرنے اور طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کرنے کے لیے اس چار فریقی گروپ کا پہلا اجلاس جنوری 2016 میں ہوا تھا جس کے بعد اس گروپ کے پانچ اجلاس اور ہوچکے ہیں۔
تاہم طالبان کے امیر ملا اختر منصور کی پاکستان کے جنوبی صوبے بلوچستان میں مئی 2016ء میں ایک ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد یہ سلسلہ تعطل کا شکار ہو گیا تھا۔