رسائی کے لنکس

قطر سے سزائے موت کے منتظر سابق بھارتی نیوی اہلکاروں کی رہائی: کیا سودے بازی ہوئی ہے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

قطر نے بھارت کے تمام آٹھ سابق نیوی اہلکاروں کو رہا کر دیا اور ان میں سے سات بھارت لوٹ آئے ہیں۔ وہاں کی ایک عدالت نے ان اہلکاروں کو سزائے موت سنائی تھی۔

قطر یا بھارت کی حکومت نے ان سابق اہلکاروں پر الزامات کی تفصیلات نہیں بتائیں۔ تاہم میڈیا رپورٹس کے مطابق ان پر اسرائیل کے لیے جاسوسی کرنے کا الزام تھا۔

بعض مبصرین کا خیال ہے کہ یہ رہائی فریقین کے درمیان کسی سودے بازی کا نتیجہ ہو سکتی ہے۔

ان قیدیوں کی رہائی کو بھارت کی بہت بڑی سفارتی کامیابی تصور کیا جا رہا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ عدالتی فیصلے کے بعد دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں جو کشیدگی پیدا ہوئی تھی وہ اب نہ صرف ختم ہو گئی ہے بلکہ ان کی رہائی کو باہمی تعلقات میں مزید استحکام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

قطر میں جن افراد کو گرفتار کیا گیا تھا ان میں کیپٹن ریٹائرڈ نوتیج سنگھ گل، کیپٹن ریٹائرڈ بیریندر کمار ورما، کیپٹن ریٹائرڈ سوربھ وشسٹ، ریٹائرڈ کمانڈر امت ناگپال، ریٹائرڈ کمانڈر پرنیندو تیواری، سابق کمانڈر سگونوکا پکالا، سابق کمانڈر سنجیو گپتا اور ریٹائرڈ سیلر راگیش شامل تھے۔

بھارت کی وزارتِ خارجہ نے پیر کو ایک بیان میں کہا کہ بھارتی حکومت قطر کی دہرا گلوبل کمپنی میں کام کرنے والے آٹھ بھارتی شہریوں کی، جنہیں قطر میں گرفتار کیا گیا تھا، رہائی کا خیر مقدم کرتی ہے۔

بیان کے مطابق آٹھ میں سے سات افراد بھارت واپس پہنچ گئے ہیں۔

نیوی کے ان سابق اہلکاروں کو اگست 2022 میں گرفتار کیا گیا تھا اور عدالتی کارروائی کے بعد انہیں گزشتہ سال 26 اکتوبر کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی۔

بھارت نے قطر کی اعلیٰ عدالت میں 9 نومبر کو اس کے خلاف اپیل کی جسے 23 نومبر کو منظور کیا گیا تھا۔

قطر میں بھارتی سفیر نے سات دسمبر کو ان قیدیوں سے ملاقات کی تھی۔

بھارتی اپیل پر سماعت کے بعد قطری عدالت نے 27 دسمبر کو موت کی سزا کو کم کر دیا تھا۔

رواں سال چار جنوری کو وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے نیوز بریفنگ میں بتایا تھا کہ بھارت کی قانونی ٹیم کو کورٹ آرڈر موصول ہو گیا ہے۔

ان افراد کو آج شب ہی قطر میں رہائی ملی تھی۔ ان میں سے سات سابق اہلکار پیر کی رات دو بجے اندرا گاندھی انٹرنیشنل ائیر پورٹ پہنچے۔

انہوں نے نئی دہلی پہنچنے پر وزیرِ اعظم نریندر مودی کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ان کی کاوش کے بغیر ان کی رہائی ممکن نہیں ہو پاتی۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بھارتی حکومت نے ان کی رہائی کے لیے کوششیں جاری رکھی ہوئی تھیں۔

مبصرین کے مطابق وزیرِ اعظم نریندر مودی اور قطر کے امیر کے درمیان ذاتی تعلقات اور وزارتِ خارجہ اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول کی کوششوں سے ان افراد کی رہائی ممکن ہو سکی ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق اجیت ڈوول نے اس درمیان کئی بار خاموشی کے ساتھ قطر کا دورہ بھی کیا جب کہ وہاں اعلیٰ حکام سے اس معاملے پر مذاکرات کیے۔

اس سے قبل دبئی میں منعقد ہونے والے کوپ-28 کے اجلاس کے موقع پر وزیرِ اعظم نریندر مودی اور قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی کی ملاقات ہوئی تھی جس میں بتایا جاتا ہے کہ اس معاملے پر بھی گفتگو کی گئی تھی۔

وزیرِ اعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ ہم نے قطر کے ساتھ باہمی تعلقات اور قطر میں موجود بھارتی شہریوں کی خیریت کے سلسلے میں اچھی بات چیت کی ہے۔

مبصرین کے مطابق سمجھا جاتا ہے کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی نے آٹھوں قیدیوں کی رہائی کے سلسلے میں بھی گفت و شنید کی تھی۔

قطر کے نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کی رپورٹ کے مطابق اس واقعے نے دونوں ممالک کے تعلقات میں عارضی طور پر کشیدگی پیدا کر دی تھی۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ دونوں اتحادیوں کے تعلقات پر اس واقعے نے خاص اثر نہیں ڈالا۔

رپورٹ کے مطابق دونوں ملکوں میں وسیع تر اقتصادی روابط ہیں۔ گزشتہ ہفتے بھارت نے قطر سے قدرتی گیس کی سپلائی کے سلسلے میں اربوں ڈالر کا سمجھوتا کیا تھا جس کے تحت 2048 تک گیس کی سپلائی کی جائے گی۔

بین الاقوامی امور کے سینئر تجزیہ کار کلول بھٹاچارجی کا کہنا ہے کہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ قیدیوں کی رہائی بھارت کی ایک سفارتی کامیابی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ معاملہ دونوں ملکوں کے مفادات کے منافی تھا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ بھارت کے لاکھوں شہری قطر میں کام کرتے ہیں جو اچھا زرِ مبادلہ بھیجتے ہیں۔ اس کے علاوہ قطر بھارت کو توانائی کی سپلائی کرتا ہے۔ یہ دونوں چیزیں دونوں ملکوں کے لیے بہت ضروری ہیں۔

ان کے بقول اگر ان افراد کو پھانسی دے دی جاتی تو وہاں کام کرنے والے بھارتی شہریوں پر منفی اثر پڑتا اور پھر یہاں کے لوگ وہاں جانے کے بارے میں سوچتے کہ وہ جائیں یا نہ جائیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس معاملے میں وزارتِ خارجہ، قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول اور دیگر سفارت کاروں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس معاملے میں بھارتی میڈیا نے بھی کردار ادا کیا۔ اس نے اپنی رپورٹنگ میں اس ایشو کو زندہ رکھا جس سے قطر پر دباؤ میں اضافہ ہوا۔ حزب اختلاف کے ارکان نے بھی پارلیمان میں اس معاملے کو اٹھایا تھا۔

ان کے مطابق نیوی کے سابق اہلکاروں کو پھانسی کی سزا سنائے جانے سے فریقین کے درمیان جو کشیدگی پیدا ہو رہی تھی وہ کسی حد تک کم ہو گئی ہے۔ لیکن ابھی اعلیٰ سطح کے مذاکرات ہونے باقی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کے ساڑھے سات سو بھارتی شہری قطر کی مختلف جیلوں میں قید ہیں۔ ابھی تو آٹھ لوگوں کو رہا کیا گیا ہے۔ دوسرے قیدیوں کو بھی جن میں غریب بھی شامل ہیں، رہا کرانے کی ضرورت ہے۔

یاد رہے کہ قطر میں تقریباً آٹھ لاکھ بھارتی شہری کام کرتے ہیں۔

مغربی ایشیا کے امور کے ماہر پروفیسر اے کے پاشا کے خیال میں قیدیوں کی رہائی کے سلسلے میں دونوں ملکوں کے درمیان سودا ہوا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں وہ بھی اسے بھارت کی سفارتی کامیابی قرار دیتے ہیں لیکن یہ بھی کہتے ہیں کہ قطر مختلف معاملات میں بھارت سے ناراض تھا۔ اس کی ایک بڑی وجہ بھارت، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان ہونے والا اسٹریٹجک معاہدہ ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ قطر کی خواہش کشمیر کے معاملے میں ثالثی کرنے کی رہی ہے جس کو بھارت نے تسلیم نہیں کیا۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ قطر نے سابق اہلکاروں کو سزائے موت کا فیصلہ سنا کر اپنی ناراضگی ظاہر کی تھی۔ لیکن اب جب کہ بھارت نے اس کی طرف اپنی توجہ مبذول کی ہے تو پھر لین دین کے تحت قیدیوں کی سزا معاف کر دی گئی۔

پروفیسر اے کے پاشا لین دین کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بھارت میں الجزیرہ کے اسٹاف پر کئی قسم کی پابندیاں تھیں۔ اس کے رپورٹر کشمیر نہیں جا سکتے، بھارتی مسلمانوں کے معاملات کی بہت زیادہ کوریج نہیں کر سکتے اور ایک مقررہ حد سے زیادہ اسٹاف نہیں رکھ سکتے۔ اس کے علاوہ حکومت کے اہلکار اس کو انٹرویو دینے کے لیے جلد وقت نہیں دیتے تھے۔

لیکن اب ان کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ الجزیرہ کے سلسلے میں بھی گفتگو ہوئی ہے جس کے بعد بہت سی پابندیاں ہٹا لی گئی ہیں۔ الجزیرہ نے بھارت میں مزید چار پانچ مقامات پر اپنا بیورو قائم کیا ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ قطر ایران سے بھی مستحکم تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے۔ لیکن اسرائیل اس میں آڑے آرہا تھا۔ حالانکہ قطر کے اسرائیل سے بھی اچھے تعلقات ہیں۔ ادھر بھارت اور اسرائیل میں بھی دوستانہ رشتے ہیں۔ اس طرح ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل سے بھی کچھ بات چیت ہوئی ہے۔

قیدیوں کی رہائی کا بھارت میں خیرمقدم کیا جا رہا ہے۔ حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی پارٹی کانگریس نے بھی اس کو خوش آئند قرار دیا ہے۔

کانگریس کے جنرل سیکریٹری جے رام رمیش نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں کہا کہ کانگریس قیدیوں کی رہائی پر ملک کی مسرتوں میں شامل ہے۔

انہوں نے ان کے اہل خانہ کو مبارک باد پیش کی ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG