صدر ولادیمیر پیوٹن نے فیصلہ کیا ہے کہ روس جرائم سے متعلق بین الاقوامی عدالت کا رُکن نہیں رہے گا۔
اس ضمن میں، پیوٹن نے بدھ کے روز ایک صدارتی حکم نامے پر دستخط کیے جس کے بعد اُن کا ملک مستقل بین الاقوامی دائرہٴ اختیار رکھنے والے اس پہلے قانونی ادارے سے دستبردار ہو جائے گا، جو قتل عام، انسان ذات کے خلاف جرائم اور جنگی جرائم کے مقدمات چلانے کا اختیار رکھتا ہے۔
پیوٹن کا حکم نامہ کریملن کی ویب سائٹ پر شائع ہوا ہے، جب کہ روس کی وزارتِ خارجہ کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’عدالت کئی ایک توقعات پر پوری نہیں اتری اور وہ حقیقی طور پر آزاد ادارہ نہیں بن پائی‘‘۔
رپورٹس کے مطابق، روس اُس سلوک پر ’’خوش‘‘ نہیں ہے، جس طرح سنہ 2008 میں جارجیا کے ساتھ روسی لڑائی کو دیکھا گیا، اور یہ کہ عدالت حکومتِ طلبسی کی جانب سےجنوبی اوسیشیا کے شہریوں کے خلاف اقدام پر توجہ مبذول کرنے میں ناکام رہی۔ جنوبی اوسیشیا روس نواز خطہ ہے۔
وزارت نے کہا ہے کہ ’’ایسے حالات میں ہم جرائم سے متعلق بین الاقوامی عدالت پر اعتماد نہیں کرسکتے‘‘۔
حکم نامہ جاری ہونے سے ایک ہی روز قبل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی حقوق انسانی کی کمیٹی نے اُس اقدام کی حمایت کی جس میں روس کی جانب سے ’’کرائیمیا پر عارضی قبضے‘‘ کی مذمت کی گئی ہے۔
روس نے سنہ 2014 میں ریفرنڈم کے بعد کرائیمیا کو ضم کیا۔ گذشتہ دو برس کے دوران، روس نے زیادہ جارحانہ خارجہ پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ سب سے پہلے اُس نے کرائیمیا کو فتح کیا، اور یوکرین کے علیحدگی پسند باغیوں کی حمایت کی، اور بشارالاسد حکومت کی حمایت میں شام میں مداخلت کی۔
حالانکہ پیوٹن نے روم معاہدے پر دستخط کیے ہیں، جس کی رو سے سنہ 2000میں ہیگ میں عدالت کا قیام عمل میں آیا۔ ’آئی سی سی‘ کا آغاز جولائی 2002ء میں ہوا، جس کے رکن ممالک کی تعداد 124 ہے۔