پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں حکام نے بناسپتی گھی کی تیاری اور فروخت پر مرحلہ وار مکمل پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
صوبے میں اشیائے خور و نوش کے نگران ادارے 'پنجاب فوڈ اتھارٹی' کے سائنٹیفک پینل کے مطابق گھی کی تیاری میں استعمال ہونے اجزا معیاری نہیں جو کئی بیماریوں کا سبب بن رہے ہیں۔
پنجاب فوڈ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل نورالامین مینگل نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ پابندی کا مقصد شہریوں کی صحت کو بہتر بنانا ہے جس پر وہ پوری طرح عمل کرائیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ فوڈ اتھارٹی گھی کے کاروبار کے خلاف نہیں اور انہوں نے گھی انڈسٹریز مالکان کو بناسپتی گھی کے بجائے سبزیوں سے تیل بنانے کا کہا ہے۔
نورالامین مینگل نے بتایا کہ ترقی یافتہ ممالک کے شہری جن بیماریوں کا شکار 60 سال کی عمر کے بعد ہوتے ہیں وہ پاکستان میں بناسپتی گھی کے استعمال کے باعث 40 سال کی عمر کے بعد آنا شروع ہو جاتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پابندی کا فیصلہ فوڈ اتھارٹی کے سائنٹیفک پینل نے کیا ہے جس پر مرحلہ وار عمل کیا جائے گا اور جولائی 2020ء تک صوبے میں بناسپتی گھی کی تیاری پر مکمل پابندی ہوگی۔
صارفين کی اکثریت نے پنجاب فوڈ اتھارٹی کے فیصلے کو سراہا ہے۔ صارفین کے مطابق گھي کا ذائقہ کوکنگ آئل سے بہتر ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ کوکنگ آئل کي قيمت کم کر کے ہي اسے ہر کسي کي دسترس ميں لايا جا سکتا ہے۔
لاہور کے علاقے دھرم پورہ کے رہائشی محمد اکبر نے بناسپتی گھی پر پابندی کے حوالے سے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر عوام کو کوکنگ آئل کي طرف مائل کرنا ہے تو اس کا معيار اور قيمت گھي کي نسبت قابلِ قبول ہونی چاہيے۔
صوبے میں بناسپتی گھی بنانے والے کارخانوں کے مالکان کا موقف ہے کہ گھي کي بجائے صرف کوکنگ آئل کي تياري کے لیے ملوں کو کافي اخراجات کرنا پڑیں گے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے پاکستان بناسپتي گھي مينوفيکچررز ايسوسي ايشن کے سربراہ شیخ عبدالوحید نے کہا کہ وہ تیار کردہ بناسپتی گھی کا معیار بہتر بنانے کے لیے تیار ہیں لیکن اس پر مکمل پابندی سے انہیں بہت نقصان ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ مل مالکان گزشتہ کئی دہائیوں سے گھی بنا رہے ہیں اور ان کے پلانٹ بھی گھی کی تیاری کے لیے موزوں ہیں اور ویجیٹیبل آئل بنانے کے لیے انہیں کارخانوں میں بہت سے تبدیلیاں کرنا پڑیں گی۔
بناسپتی گھی کی پابندی پر ڈيلرز کا کہنا ہے کہ گھي کي پيداوار پر پابندي صرف صوبۂ پنجاب ميں نہيں بلکہ پورے پاکستان ميں ہوني چاہيے۔
لاہور کے کاروباری علاقے اکبری منڈی کے ایک تاجر نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب کی فیکٹریاں بناسپتی گھی نہیں بنائیں گی تو یہ دوسرے صوبوں سے آ جائے گا۔ اس لیے ان کے بقول ضروری ہے کہ اگر پابندی لگانی ہے تو پورے ملک میں لگائی جائے۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت اندازاً 65 سے 80 في صد تک صارفین گھي خريدتے ہيں کيونکہ کوکنگ آئل نسبتاً مہنگا ہے۔
پنجاب فوڈ اتھارٹی کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان ميں 109 گھي مليں روزانہ 50 ہزار ٹن گھي اور کوکنگ آئل تيار کررہي ہيں جس ميں سے آٹھ ہزار ٹن صرف لاہور شہر ميں ہي استعمال ہوجاتا ہے۔