پنجاب میں انتقالِ اقتدار کا معاملہ تاحال حل نہیں ہو پایا ہے۔ عدالتی حکم کے باوجود نئے قائدِ ایوان حمزہ شہباز کا حلف نہیں ہو سکا ہے۔ گورنر پنجاب نئے قائدِ ایوان کے حلف لینے کے لیے معاملے کو مسلسل طول دے رہے ہیں۔
حلف نہ لینے جانے کے باعث پاکستان کا سب سے بڑا منصوبہ بغیر وزیرِ اعلیٰ کے چل رہا ہے جس کے باعث سیاسی اور آئینی بحران بڑھتا جا رہا ہے۔
اِس سلسلے میں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے ایک مرتبہ پھر عدالتِ عالیہ لاہور سے رجوع کر لیا ہے۔ عدالت میں دائر درخواست میں مسلم لیگ (ن) نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ ایوانِ صدر کی جانب سے عدالتی حکم پر عمل درآمد نہیں کیا جا رہا۔ عدالت سے رجوع کرنے سے پہلے وزیرِ اعظم شہباز شریف کی جانب سے ایک بار پھر ایوانِ صدر کو یاد دہانی کا مراسلہ ارسال کیا گیا ہے۔
پنجاب کے نو منتخب وزیرِ اعلیٰ حمزہ شہباز کے حلف کے معاملے پر وزیرِ اعظم ہاؤس نے ایک بار پھر صدر مملکت عارف علوی کو یاد دہانی کا مراسلہ ارسال کیا ہے۔وزیرِ اعظم شہباز شریف کی جانب سے 24 اپریل کو مراسلہ بھجوایا گیا ہے جس میں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے روشنی میں حلف کے لیے کسی کی نامزدگی کا کہا گیا ہے۔ مراسلے میں کہا گیا ہے کہ پنجاب 23 دن سے بغیر کسی حکومت کے چل رہا ہے۔
لاہور میں گورنر ہاؤس کے ایک سینئر عہدیدار کے مطابق حمزہ شہباز سے حلف لینے کے لیے دو مرتبہ تیاریاں بھی کی گئیں البتہ بات پایا تکمیل تک نہیں پہنچ سکی۔اس اعلیٰ افسر کا کہنا تھا کہ پہلی مرتبہ حلف لینے کے لیے انتظامات پنجاب اسمبلی کے الیکشن کے اگلے روز کیے گئے تھے البتہ بعد ازاں تقریب منسوخ کر دی گئی تھی۔ اِسی طرح دوسری مرتبہ عدالتِ عالیہ لاہور کے فیصلے کی روشنی میں انتظامات کیے گئے تھے۔
خیال رہے کہ وزیرِ اعظم ہاؤس پہلے بھی ایوان صدر کو ایڈوائس ارسال کر چکا ہے۔ اِس سے قبل بھجوائے جانے والی ایڈوائس میں چیئر مین سینٹ کو حلف کے لیے نامزد کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔
دوسری جانب پنجاب میں انتقالِ اقتدار کے معاملے پر گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے وزیرِ اعلیٰ کے استعفے اور انتخاب کی رپورٹ صدر مملکت عارف علوی کو ارسال کر دی ہے۔
گورنر عمر سرفراز چیمہ نے وزیرِ اعلیٰ کے انتخاب کو غیر آئینی اور سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے استعفے کے معاملے کو بھی متنازع قرار دیا ہے اور صدر مملکت سے رہنمائی طلب کی ہے۔ رپورٹ میں پنجاب اسمبلی کے ایوان میں پولیس کے داخلے کو بھی قواعد کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔
گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے 23 اپریل کو وزیرِ اعلیٰ کے انتخاب کے بارے میں تحفظات پر مبنی چھ صفحات کی رپورٹ صدر مملکت کو ارسال کی ہے جس میں پنجاب اسمبلی کے ایوان میں وزیرِ اعلیٰ کے انتخاب کی آئینی خلاف ورزیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وزیرِ اعلیٰ کا انتخاب آئین اور قانون کے مطابق نہیں ہوا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وزیرِ اعلیٰ کے انتخاب کے لیے ووٹنگ کا ریکارڈ ٹیمپرڈ ہے۔ ارکان اسمبلی کوووٹ دینے سے روکا گیا۔
رپورٹ کے مطابق عثمان بزدار کا استعفی بھی متنازع ہے۔ گورنر آفس کو وزیرِ اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا استعفی کبھی موصول نہیں ہوا تو اس کو منظور کیسے کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کا مؤقف ہے کہ پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ کے لیے ہونے والا انتخاب درست نہیں ہے، اس لیے یہ انتخاب دوبارہ ہونا چاہیے۔
پی ٹی آئی کے سینیٹر ولید اقبال سمجھتے ہیں کہ موجودہ سیاسی صورتِ حال کا فیصلہ عدالت کرے گی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ولید اقبال نے کہا کہ پنجاب میں جو سیاسی صورتِ حال درپیش ہے اِس کا فیصلہ سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر کرنا چاہیے البتہ گزشتہ ایک ماہ میں جو کارروائیاں ہوئی ہیں اور راتوں رات ایک اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا گیا ہے۔ یہ ایک سیاسی انجینئرنگ ہے۔ جس میں بات چیت کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔
سینیٹر ولید اقبال کے مطابق اگر حمزہ شہباز کا حلف نہیں ہوتا تو اِس کے قانونی پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا ہےجس کا مشورہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بھی دیا ہے کہ انتخاب درست نہیں ہے۔
مبصرین کے مطابق یہ ایک اچھی سیاسی روایت قائم نہیں ہو رہی۔ سیاسی جماعتوں کو پختگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلیم بخاری کہتے ہیں کہ پاکستان میں اِس طرح کا بحران پہلی مرتبہ دیکھنے میں آیا ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف، جس کو اقتدار سے ہاتھ دھونے پڑے، وہ اپنی غلطی ٹھیک کرنے پر آمادہ ہے، نہ ہی آئینی اور جمہوری رویہ اپنا رہی ہے۔ اِس رویے کی کچھ سمجھ نہیں آ رہی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ جس طرح سے اسلام آباد میں وزیرِ اعظم کا حلف ہوا ہے۔ وہ سب کے سامنے ہے۔ جہاں تک بات ہے پنجاب کی، تو عثمان بزدار نے استعفٰی دیا۔ جو وزیرِ اعظم عمران خان کو بھیجا گیا اور اس وقت کے پنجاب کے گورنر چوہدری سرور سے کہا گیا ہے اِس پر دستخط کر دیں جس پر اُنہوں نے دستخط کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ استعفٰی لاہور ارسال کیا جائے۔وہ استعفے پر قانونی مشاورت کے بعد بتائیں گے جس کے بعد چوہدری سرور نے عثمان بزدار کو بلا کر استعفٰے کی تصدیق کی اور تصدیق ہونے کے بعد اُس کو منظور کیا۔ یوں اس استعفے میں کوئی قانونی سقم نہیں ہے۔
واضح رہے کہ پنجاب آبادی کے اعتبار سے ملک کے سب سے بڑا صوبہ ہے جس کے ایوان کی کل تعداد 371 ہے۔ جہاں عدالتی حکم پر رواں ماہ 16 اپریل 2022 کو نئے قائدِ ایوان کا انتخاب ہوا۔ عدالتِ عالیہ لاہور ہی نے اپنے فیصلے میں رواں ماہ 22 اپریل کو نئے وزیراعلیٰ سے حلف لینے کے لیے صدرِ مملکت کو نمائندہ مقرر کرنے کی ہدایت کی تھی۔
گورنر پنجاب کے کردار پر بات کرتے ہوئے سلیم بخاری نے کہا کہ یوں لگتا ہے کہ وہ بھی صدر پاکستان کی طرز پر چل رہے ہیں۔ اُن کا جواز یہ ہے کہ استفٰفے کی منظوری قانونی نہیں ہے۔
سلیم بخاری کی رائے میں موجودہ سیاسی صورتِ حال میں تحریکِ انصاف کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے جس کے باعث نئے قائدِ ایوان کے حلف میں کچھ دِنوں کی تاخیر ہو سکتی ہے لیکن آئینی طور پر اِس کو روکا نہیں جا سکتا۔
اُنہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کو پختہ آئینی سوچ کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ آئین صدر اور گورنر کے لیے جو ذمہ داریاں مقرر کرتا ہے اُس سے روگردانی نہیں کی جا سکتی۔ ایسا کیے جانے کی صورت میں سزا موجود ہے۔
سینیٹر ولید اقبال سمجھتے ہیں کہ گورنر پنجاب کی جانب سے حمزہ شہباز سے حلف نہ لیے جانے پر کوئی آئینی بحران پیدا نہیں ہو گا کیوں کہ کہیں آئین شکنی نہیں ہوئی۔
اُنہوں نے کہا کہ گورنر پنجاب کا یہی مؤقف ہے کہ آئین کے مطابق درست انتخاب نہیں ہوا۔
اُن کے مطابق گورنر پنجاب نے بھی ایوان صدر سے ہدایت مانگی ہے کہ موجودہ صورتِ حال میں کیا کرنا چاہیے۔ سینیٹر ولید اقبال سمجھتے ہیں کہ موجودہ سیاسی صورتِ حال کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے فوری عام انتخابات کرائے جائیں۔
میڈیا اطلاعات کے مطابق عدالتِ عالیہ لاہور کے فیصلے کی روشنی میں پنجاب حکومت کا طیارہ چیئر مین سینیٹ صادق سنجرانی کو لینے اسلام آباد بھجوایا گیا البتہ ایوانِ صدر کی جانب سے کوئی ہدایات موصول نہیں ہو سکی جس کے باعث چیئرمین سینیٹ حمزہ شہباز سے حلف لینے کے لیے اسلام آباد سے لاہور نہ پہنچ سکے۔
یاد رہے کہ عثمان بزدار نے بطور وزیراعلیٰ پنجاب اپنا استعفٰی 28 مارچ کو وزیرِ اعظم کو دیا تھا جسے چند دِن بعد اُس وقت کے گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے قبول کیا تھا۔ تاہم بعد ازاں ایک سرکاری مراسلے میں اُنہیں اگلے وزیراعلٰیٰ کے انتخاب تک کام کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔