مخالفت اور الزامات کے باوجود پختون تحفظ تحریک (پی ٹی ٹی) کے کارکنوں نے اپنے مطالبات کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے خیبر پختونخوا اور ملحقہ قبائلی علاقوں میں ریلیاں اور جلوس منعقد کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
اتوار کو 'پی ٹی ٹی' نے افغانستان سے ملحق قبائلی علاقے باجوڑ ایجنسی کے تجارتی مرکز عنایت کلی میں ایک بڑی ریلی نکالی جس میں سیکڑوں افراد شریک ہوئے۔
ریلی کے شرکا لاپتا افراد کی فوری رہائی یا بازیابی، علاقے سے غیر ضروری چوکیوں کے خاتمے اور عام لوگوں کے ساتھ سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کے رویوں پر نظرِ ثانی کے حق میں نعرے لگارہے تھے۔
ریلی سے پختون تحفظ تحریک کے کئی مقامی رہنماؤں نے خطاب کیا۔
باجوڑ ایجنسی میں 'پختون تحفظ تحریک' کے ایک سرکردہ رکن اور ریلی کے منتظم سراج الدین نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ مقررین نے قبائلیوں کو درپیش جن مسائل کو اجاگر کیا ان میں مقامی لوگوں سے بغیر اُجرت کے مشقت بھی شامل ہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ مختلف چوکیوں پر تعینات سکیورٹی اہلکار اور افسران مقامی قبائلیوں سے زبردستی مشقت لیتے ہیں۔
ریلی سے خطاب کرنے والوں نے حکومت اور مقامی سکیورٹی اور انتظامی حکام سے عام لوگوں سے زبردستی مشقت لینے کی اس لعنت کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
سراج الدین نے بتایا کہ باجوڑ کی ریلی کا ایک مقصد 29 اپریل کو سوات میں ہونے والی ریلی میں لوگوں کی زیادہ سے زیادہ شرکت کو یقینی بنانا تھا۔
ایک سوال کے جواب میں سراج الدین نے کہا کہ ابھی تک پختون تحفظ تحریک کے خلاف براہِ راست مزاحمت یا مخالفت تو شروع نہیں ہوئی ہے مگر تحریک کے خلاف پروپیگنڈے کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔
انہوں نے 'پی ٹی ٹی' پر غیر ملکی قوتوں بالخصوص افغانستان اور ہندوستان کے آلۂ کار بننے کے الزامات مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پختون تحفظ تحریک کے تمام تر مطالبات ملک کے آئین اور قانون کے مطابق ہیں۔
باجوڑ ایجنسی کی انتظامیہ نے ریلی کے شرکا کی جانب سے جبری اور بلا معاوضہ مشقت کے خاتمے کے مطالبے کے بارے میں کسی قسم کا بیان یا ردِ عمل نہیں دیا ہے۔ مگر مقامی قبائلی مشران اور صحافیوں نے بھی ان الزامات کی تصدیق کی ہے۔
پختون تحفظ تحریک کے خلاف حالیہ چند ہفتوں کے دوران قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا میں پراسرار طور پر 'پاکستان زندہ باد' اور 'پاکستان تحفظ تحریک' کے نام سے تنظیمیں معرضِ وجود میں آئی ہیں۔
ان دونوں تنظیموں کے زیرِ انتظام بھی ریلیوں، جلسوں، جلوسوں اور کانفرنسوں کا سلسلہ جاری ہے جن میں پختون تحفظ تحریک کی نہ صرف مخالفت کی جارہی ہے بلکہ اس تحریک کے سربراہ پر ہندوستان اور افغانستان کی ایما پر پاکستانی فوج کی کردار کشی کے الزامات بھی لگائے جارہے ہیں۔
رواں سال فروری میں اسلام آباد میں ہونے والے دھرنے کے موقع پر مبینہ طور پر پاکستان کے بعض سکیورٹی اداروں کے اعلیٰ افسران نے پختون تحفظ تحریک کے رہنمائوں سے ملاقات کرکے ان کے مطالبات کو تسلیم کرنے اور جلد از جلد حل کرنے کی یقین دہانیاں کرائی تھیں۔
مگر اب اس تحریک کے خلاف غیر ملکی قوتوں بالخصوص دشمن ممالک کے ہاتھوں میں آلۂ کار بننے کے الزامات لگائے جارہے ہیں۔
پختون تحفظ تحریک نے پشاور میں 8 اپریل کو ایک جلسہ کیا تھا جس میں ہزاروں افراد شریک تھے۔ تحریک 22 اپریل کو لاہور اور 29 اپریل کو سوات میں بھی جلسے کرنے کا اعلان کرچکی ہے۔
اطلاعات کے مطابق لاہور کے جلسے کے سلسلے میں فیصل آباد میں اتوار کو منعقد ہونے والی پریس کانفرنس کو مبینہ طور پر مقامی انتظامیہ کے دبائو پر منتظمین نے منسوخ کردیا ہے۔