رسائی کے لنکس

نسلی برابری کی حالیہ تحریک کیا نئی تاریخ رقم کر سکے گی؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

امریکہ کے شہر منی ایپلس میں تقریباً مہینہ بھر پہلے پولیس کی تحویل میں ایک سیاہ فام امریکی شہری جارج فلائیڈ کی المناک موت کی بازگزشت اب بھی جاری ہے اور نہ صرف امریکہ، بلکہ دنیا بھر کے بہت سے ملکوں میں بھی اس سانحے کے نتیجے میں اب پولیس اصلاحات کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔

جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد امریکہ اور اس کے باہر جس بڑے پیمانے پر مظاہرے اور تشدد پھوٹ پڑے ان میں پولیس کے مبینہ مظالم کے خلاف اور نسلی برابری کے لئے زور دار آواز بلند کی گئی۔

نسلی انصاف کے علمبردار اس جانب توجہ دلاتے ہیں کہ گزشتہ دنوں امریکہ میں جو مظاہرے دیکھنے میں ائے ہیں، وہ نئے نہیں ہیں اور اس کی فوری اور واحد وجہ فلائید کی موت کو ہی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس کے پیچھے جدوجہد کی ایک طویل تاریخ ہے اور برسوں سے اس حوالے سے لاوا پکتا رہا ہے۔

رنگدار لوگوں کی ترقی کی قومی تنظیم این اے اے سی پی کے سابق صدر کورنل بروکس کا کہنا ہے کہ یہ مطالبہ ایک ایسے وقت میں ابھر کر سامنے آیا ہے جب پولیس کی مبینہ بے قاعدگیوں سے عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ پولیس تحویل میں جارج فلائیڈ کی موت سے قبل بھی کئی افراد کی ہلاکتوں کی ویڈیوز سامنے آتی رہی ہیں۔

واشنگٹن ڈی سی میں حالیہ مظاہروں میں شامل ہلڈا جورڈن نے بہت سے مظاہرین کی گویا ترجمانی کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ ہمیں نسل پرستی کے خلاف جنگ جاری رکھنی ہو گی۔ اس کا مقابلہ اسی انداز سے کرنا ہو گا جو موجودہ کرونا وائرس کے خلاف اختیار کیا جا رہا ہے۔

انھوں نے اس جانب توجہ مبدول کرائی کہ اس مرتبہ جو مظاہرے ہوئے، ان میں سوشل میڈیا کافی متحرک تھا، اور نہ صرف بلکہ فنڈ اکھٹا کرنے کے لئے بھی سرگرمی دیکھنے میں آئی اور دستخطی مہم بھی چلائی گئی۔

مبصرین کہتے ہیں کہ ایک دلچسپ پہلو یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ کوویڈ 19 کی وجہ سے بہت بڑی تعداد میں بیرزگار ہوئے ہوئے ہیں اور ان کے پاس سڑکوں پر آنے کے لئے کافی وقت دستیاب ہے۔ جو رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات بھی پیش کر رہے ہیں۔

اس طرح کوویڈ 19 نے نسلی مساوات کی تحریک کو بھی ایک نئی جہت دیے دی ہے۔ سیاہ فام لوگ، جنھوں نے حالیہ ہفتوں میں مظاہرے کئے، کہتے ہیں کہ ان کے خلاف امتیازی سلوک اور تشدد کوئی نئی بات نہیں ہے۔

سونیا بھی ان مظاہروں میں شرکت کرتی رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں ایک سیاہ فام خاتون کے طور پر پیدا ہوئی تھی اور ہمیں پتہ تھا کہ اسی صورت زندگی گزارنی پڑے گی۔ لہذا یہ کوئی نئی اور حیران کن بات نہیں۔

سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا نے مظاہروں کو منظم کرنے اور اپنی آواز بلند کرنے میں کافی مدد دی ہے۔ اس سے نہ صرف ملک کے اندر بلکہ بیرونی دنیا میں بھی ہمارے پیغام کو پذیرائی ملی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ انھیں اعتماد ہے کہ حالیہ تحریک سے حقیقی معنوں میں مثبت تبدیلیوں کی امید کی جا سکتی ہے اور اس کا مظاہرہ پولیس کے محکمے میں اصلاحات کی کوششوں کی شکل میں دیکھنے میں آ رہا ہے۔

مبصرین کے خیال میں موجودہ تحریک نہ صرف سوچ میں تبدیلی کی نوید بھی ہو سکتی ہے، بلکہ اس سے ایک نئی تاریخ بھی رقم ہونے کا امکان دکھائی دیتا ہے۔

XS
SM
MD
LG