رسائی کے لنکس

سندھ میں ہندو برادری کے چار افراد کا اغوا: کشمور میں دو روز سے احتجاجی دھرنا جاری


پاکستان کے صوبہ سندھ میں ہندو برادری کے چار افراد کے اغوا پر ہندو کمیونٹی کا احتجاج جاری ہے۔

احتجاج کے باعث سندھ ،پنجاب اور بلوچستان جانے والی ٹریفک کی آمدو رفت معطل ہے جس سے مسافروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ادھر پولیس اب تک مغویوں کو بازیاب کرانے میں ناکام رہی ہے جب کہ مظاہرین کا کہنا ہے کہ دھرنا اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک مغویوں کو بازیاب نہیں کرایا جاتا۔

دھرنے کے متنظمین کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں ایک بچے سمیت ہندو برادری کے کم از کم چار افراد کو کشمور اور کندھ کوٹ کے اضلاع سے اغوا کیا گیا۔

ان میں 24 سالہ ساگر کمار، جگدیش کمار، دیپ کمار اور ڈاکٹر منیر سمیت دیگر لوگ بھی شامل ہیں۔

دھرنے کو سول سوسائٹی کے علاوہ سیاسی، قوم پرست اور مذہبی جماعتوں کی بھی حمایت حاصل ہے اور اس میں مختلف رہنما شرکت بھی کر رہے ہیں۔

چوبیس سالہ ساگر کمار کے بھائی راج کمار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کے بھائی کو مسلح افراد نے نو اگست کو اس وقت اغوا کیا تھا جب وہ قریبی ہوٹل میں رات کا کھانا کھا رہا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ اغوا کار موٹر سائیکلوں پر آئے تھے جن کے ہاتھوں میں کلاشنکوفیں تھیں۔ انہوں نے میرے بھائی کو بھرے بازار میں باآسانی اغوا کیا اور لے کر شہر سے نکل گئے جب کہ ہر جگہ یہاں پولیس کی چیک پوسٹس موجود ہیں۔

ساگر کمار کا کہنا تھا کہ اغوا کاروں نے بھائی کی رہائی کے عوض 10 کروڑ روپے کا تاوان طلب کیا جا رہا ہے۔ جب کہ وہ اور ان کا بھائی ڈرائی فروٹس کی دکان چلاتے ہیں اور بہت ہی محدود آمدن رکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پولیس نہ صرف اب تک مغوی کو بازیاب کرنے میں ناکام رہی ہے بلکہ الزام عائد کیا کہ پولیس نے واقعے کی ایف آئی آر بھی درج نہیں کی۔

اتوار کو کراچی میں بھی سینکڑوں شہریوں نے مغوی افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج کیا اور ان کی بحفاظت واپسی کا مطالبہ کیا۔

مظاہرین اور شرکا کا کہنا تھا کہ کشمور، کندھ کوٹ، شکار پور اور ملحقہ علاقوں میں اغوا برائے تاوان خاص طور پر مذہبی اقلیتوں کے اغوا کے بڑھتے ہوئے واقعات انتہائی تشویشناک ہیں۔

نگراں وزیر داخلہ سندھ بریگیڈیئر (ر) حارث نواز نے مظاہرے کے شرکا کو یقین دلایا کہ یرغمالیوں کو بہت جلد بازیاب کرا لیا جائے گا اور وہ جلد ہی اپنے گھروں کو واپس آجائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ پولیس ڈاکوؤں کے خلاف سخت کارروائی کر رہی ہے۔ دھرنے کے منتظمین کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس بات کی بھی یقین دہانی کرائی ہے کہ جن لوگوں کی رہائی کے لیے تاوان ان کے خاندانوں نے ادا کیا، ریاست انہیں یہ رقم بھی لوٹائے گی۔

کندھ کوٹ سے صحافی میر علی اکبر بھنگوار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ایس ایس پی ضلع کشمور امجد احمد شیخ نے کشمور میں دھرنے پر بیٹھے مظاہرین سے بھی ملاقات کی اور انہیں بتایا کہ اغوا کاروں کی بحفاظت بازیابی کے لیے دریائی پٹی میں پولیس آپریشن جاری ہے۔

دوسری جانب مغویوں کی بازیابی کے لیے ڈاکوؤں کی جانب سے کروڑوں روپے تاوان طلب کیا گیا ہے اور تاوان ادا نہ کیے جانے پر مغویوں کے اہلِ خانہ کو ان کی جان کی دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں۔

دوسری جانب ضلع بھر کے چھوٹے بڑے شہروں میں شٹرڈاؤن ہڑتال اور کاروباری مراکز بند ہیں۔

مظاہرین کا کہنا ہے کہ پولیس مغویوں کو بازیاب کرانے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ مظاہرین نے کچے میں فوجی آپریشن کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

شمالی سندھ کے آٹھ اضلاع میں دریائی بیلٹ کے دور دراز علاقوں کو اغوا کاروں، ڈاکوؤں اور اسلحے کی غیر قانونی تجارت کی جنت تصور کیا جاتا ہے۔

ان علاقوں میں پولیس سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کنٹرول بہت کم ہے اور یہاں نہ صرف سندھ بلکہ ملک کے مختلف علاقوں سے لوگوں کو اغوا کر کے رکھا جاتا ہے اور پھر ڈاکو تاوان کے عوض لوگوں کو چھوڑتے ہیں۔

پولیس اور رینجرز کی ماضی میں متعدد کارروائیوں کے باوجود علاقے کو جرائم پیشہ افراد سے پاک نہیں کیا جا سکا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ انفراسٹرکچر اور وسائل کی کمی کے ساتھ جرائم پیشہ عناصر کی سیاسی اور پولیس میں موجود عناصر کی جانب سے پشت پناہی کے باعث یہاں ماضی میں کیے گئے آپریشنز ناکام ثابت ہوئے ہیں۔

سندھ حکومت اور خود پولیس بھی اس بات کا اعتراف کرتی آئی ہے کہ صوبے کے دریائی علاقوں جسے کچے کے علاقے بھی کہا جاتا ہے کے ڈاکو ان کے لیے ایک چیلنج بن چکے ہیں اور ان کے تدارک کے لیے کیے گئے آپریشنز میں کئی پولیس اہل کار بھی اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG