کراچی ۔۔۔۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی غیر موجودگی کے باوجود، پیر کی رات تحفظ پاکستان ترمیمی بل 2014ء منظور کرلیا گیا۔
بل کی منظوری کے خلاف حزب اختلاف کے اراکین نے شدید ہنگامہ آرائی کی یہاں تک کہ بل کی کاپیاں بھی پھاڑ دی گئیں اور ایوان مچھلی بازار بن گیا۔ لیکن، حکومتی ارکان نے بالآخر قانون سازی منظور کرا لی۔
ترمیم کی غرض سے، بل حکومت کی اتحادی جماعت جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن گروپ کی شاہدہ اختر نے پیش کیا۔
اس موقع پر تحریک انصاف نے کورم مکمل نہ ہونے پر شک کا اظہار کیا۔ لیکن، اسپیکر کی جانب سے ہدایت پر گنتی کی گئی جو پوری تھی۔
بل میں دیئے گئے متن کے مطابق، اس میں تحفظ پاکستان بل 2013ء کی شقیں بھی شامل ہیں۔ بل میں تحریر ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف مقدمات کی سماعت کے لئے خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں گی، جبکہ دہشت گردی سے متعلق تفتیش مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کرے گی۔
بل کی منظوری سے متعلق مقامی میڈیا سے جاری معلومات میں کہا گیا ہے کہ خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف 15 دنوں کے اندر اندر اپیل کی جا سکے گی، جبکہ مقدمے کی کارروائی آئین کے آرٹیکل دس سے متصادم نہیں ہوگی۔ سزا یافتہ شخص کو بل کے تحت ملک کی کسی بھی جیل میں رکھا جاسکے گا۔
منظوری سے قبل اپوزیشن نے بل کی کھل کر مخالفت کی۔ ارکان بل میں ترامیم کے خلاف نعرے بازی کرتے رہے اور آخر میں اجلاس سے واک آوٴٹ کرگئے۔
ارکان کے باہر جانے کے باوجود بل کی مرحلے وار منظوری جاری رہی اور بلاخر اسے منظور کرلیا گیا۔
بل کی منظوری کے خلاف حزب اختلاف کے اراکین نے شدید ہنگامہ آرائی کی یہاں تک کہ بل کی کاپیاں بھی پھاڑ دی گئیں اور ایوان مچھلی بازار بن گیا۔ لیکن، حکومتی ارکان نے بالآخر قانون سازی منظور کرا لی۔
ترمیم کی غرض سے، بل حکومت کی اتحادی جماعت جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن گروپ کی شاہدہ اختر نے پیش کیا۔
اس موقع پر تحریک انصاف نے کورم مکمل نہ ہونے پر شک کا اظہار کیا۔ لیکن، اسپیکر کی جانب سے ہدایت پر گنتی کی گئی جو پوری تھی۔
بل میں دیئے گئے متن کے مطابق، اس میں تحفظ پاکستان بل 2013ء کی شقیں بھی شامل ہیں۔ بل میں تحریر ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف مقدمات کی سماعت کے لئے خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں گی، جبکہ دہشت گردی سے متعلق تفتیش مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کرے گی۔
بل کی منظوری سے متعلق مقامی میڈیا سے جاری معلومات میں کہا گیا ہے کہ خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف 15 دنوں کے اندر اندر اپیل کی جا سکے گی، جبکہ مقدمے کی کارروائی آئین کے آرٹیکل دس سے متصادم نہیں ہوگی۔ سزا یافتہ شخص کو بل کے تحت ملک کی کسی بھی جیل میں رکھا جاسکے گا۔
منظوری سے قبل اپوزیشن نے بل کی کھل کر مخالفت کی۔ ارکان بل میں ترامیم کے خلاف نعرے بازی کرتے رہے اور آخر میں اجلاس سے واک آوٴٹ کرگئے۔
ارکان کے باہر جانے کے باوجود بل کی مرحلے وار منظوری جاری رہی اور بلاخر اسے منظور کرلیا گیا۔