وسیم صدیقی/محمد ثاقب
ممتاز مزاح نگار اور دانشور مشتاق احمد یوسفی 94 سال کی عمر میں کراچی میں انتقال کرگئے۔ کسی دانشور نے ان کی خدمات کے عوض انہیں خراج تحسین کے طور پر کہا تھا کہ’’ہم عہد یوسفی میں زندہ ہیں‘‘ لیکن یہ عہد بھی بدھ کی شام کراچی میں اپنے اختتام کو پہنچا۔
مشاق احمد یوسفی کئی ماہ تک نمونیے سے لڑتے لڑتے بلاخر ہار ہی گئے۔
نمونیے سے لڑنے کے لئے ان کی کمزوری اور طویل العمری آڑے آگئی۔ وہ کراچی کے ایک اسپتال میں زیر علاج تھے۔
ان کی نماز جنازہ جمعرات کو کراچی ہی میں ادا کی جائے گی۔
مشتاق احمد یوسفی 4ستمبر 1923 کو بھارتی ریاست راجستھان کی پنک سٹی ’جے پور‘ میں پیدا ہوئے تھے۔تعلیم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور آگرہ یونیورسٹی سے حاصل کی۔ تقسیم کے بعد کراچی آبسے۔ پیشے کے اعتبار سے وہ بینکار تھے اور کئی بینکوں میں خدمات انجام دیں۔
مشاق احمد یوسفی کی پانچ شہرہ آفاق کتابیں ہیں جن میں چراغ تلے 1961ء میں ’خاکم بدہن‘ 1969ءمیں، زرگزشت 1976ء،آبِ گم 1990ء، شامِ اور آخری کتاب شعرِ یاراں 2014ء میں شائع ہوئی تھی۔
انہیں حکومت پاکستان کی جانب سے ادب میں نمایاں کارکردگی پر ’ہلال امتیاز‘ اور ’ستارہ امتیاز‘ سے بھی نوازا گیا تھا۔
مشتاق احمد یوسفی اردو ادب خصوصاََ مزاح نگاری میں اہم مقام رکھتے تھے۔
ان کے والد ریاست جے پور کے پولیٹکل سیکریٹری تھے اور جے پور کے پہلے مقامی مسلمان تھے جو گریجویٹ ہوئے۔ 1956ء میں یوسفی صاحب پاکستان آگئے اور مقامی بینک میں ملازمت شروع کی اور ترقی کرتے کرتے بینک کے صدر بن گئے۔
مشتاق احمد یوسفی کا ادبی سفر 1900ء میں مضمون ’صنف لاغر‘ سے شروع ہوا جو لاہور سے شائع ہونے والے رسالہ ’سویرا‘ کی زینت بنا۔ اس طرح مختلف رسالوں میں ان کے مضامین شائع ہوتے رہے۔
1961ء میں مختلف انشائیوں اور مضامین کو یکجا کرکے مشتاق احمد یوسفی کا پہلا مجموعہ ’چراغ تلے‘ کے نام سے منظر عام پر آیا۔ ان کے کل پانچ مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ ان کی مشہور کتابوں میں چراغ تلے، خاکم بدہن، زرگزشت، آب گم، شام شعر یاراں شامل ہیں۔
مشتاق احمد یوسفی نے اپنی زندگی کا ایک طویل عرصہ اردو ادب کی خدمت کرنے میں گزارا۔ مشتاق یوسفی کے انتقال پر ادبی و سماجی شخصیات نے گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان آرٹس کونسل نے اردو ادب کے عظیم نام کے انتقال پر تین روزہ سوگ کا اعلان کیا یے۔
مشتاق احمد یوسفی نے پسماندگان میں دو بیٹے اور دو بیٹیاں چھوڑی ہیں۔ ان کی نمازہ جنازہ جمعرات کو سلطان مسجد ڈیفینس کراچی میں ادا کی جائے گی۔