ویب ڈیسک _امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امید ظاہر کی ہے کہ امریکی مذاکرات کار یوکرین اور روس کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ کرانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ساتھ ہی حکام کا کہنا ہے کہ امریکہ چاہتا ہے کہ روس غیر مشروط طور پر لڑائی روکنے پر آمادہ ہوجائے۔
روس کے حکومتی مرکز کریملن نے کہا ہے کہ اسے جنگ بندی کی ان تجاویز کی تفصیلات کا انتظار ہے جن پر رواں ہفتے امریکہ اور یوکرین کے درمیان سعودی عرب میں بات چیت کے بعد اتفاق ہوا ہے۔
تاہم روس نے تین برس سے جاری جنگ روکنے کا عندیہ نہیں دیا ہے۔فروری 2022 میں روس کے یوکرین پر حملے کے بعد شروع ہونے والی اس جنگ کے دوران ہزاروں افراد کی اموات ہوئی ہیں جب کہ یوکرین میں بڑی تعداد میں آبادی کو نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا ہے۔
بدھ کو روس کے سرکاری ٹیلی وژن پر صدر پوٹن کو کرسک کا دورہ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ روسی افواج نے مغربی کرسک کے علاقے سے یوکرینی فوج کو پسپا کیا ہے جس کے بعد صدر نے اگلے محاذوں کا دورہ کیا۔
یوکرین نے گزشتہ برس اگست میں اچانک حملہ کرکے روس کے اس علاقے کا کنٹرول حاصل کیا تھا۔
یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی واضح کرچکے ہیں کہ کیف جنگ بندی کی تجاویز قبول کرنے کے لیے تیار ہے جب کہ امریکہ نے اشارہ دیا ہے کہ اگر روس کے صدر پوٹن لڑائی روکنے کی تجاویز ماننے سے انکار کرتے ہیں تو اس پر ’’سخت‘‘ ردِ عمل ہوگا۔
صدر ٹرمپ نے بدھ کو آئرلینڈ کے وزیرِ اعظم مائیکل مارٹن سےوائٹ ہاؤس میں ملاقات کے موقع پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’اس وقت جب ہم بات کر رہے ہیں تو کچھ لوگ روس جارہے ہیں۔ اور مجھے امید ہے کہ ہم جنگ بندی پر روس کی رضا مندی حاصل کرلیں گے۔‘‘
انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ صدر پوٹن سے براہِ راست بات کریں گے یا نہیں۔ تاہم انہوں نے یہ کہا کہ ماسکو سے ’’مثبت پیغام‘‘ مل رہے ہیں اور ان کے بقول، ’’مجھے امید ہے کہ وہ (صدر پوٹن) جنگ بندی کے لیے آمادہ ہوجائیں گے۔‘‘
وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کے نمائندۂ خصوصی اسٹیو وٹکوف رواں ہفتے ماسکو کا دورہ کریں گے۔ وٹکوف غزہ اور یوکرین جنگ سے متعلق مذاکرات کے ثالثوں میں شامل ہیں۔
امریکی صدر کا کہنا ہے کہ اگر روس جنگ بندی کی پیش کش قبول کرنے سے انکار کرتا ہے تو اس کے خلاف ’’انتہائی سخت‘‘ پابندیاں عائد کی جاسکتی ہیں تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا، ’’مجھے امید ہے اس کی نوبت نہیں آئے گی۔‘‘
جدہ میں امریکہ اور یوکرین کے اعلیٰ سطح کے سفارتی وفود کے درمیان مذاکرات کے بعد یوکرین نے روس کے ساتھ 30 دن کی جنگ بندی کے لیے آمادگی کا اظہار کیا تھا۔ منگل کو ہونے والی اس پیش رفت کے بعد ٹرمپ حکومت نے یوکرین کے لیے فوجی امداد اور انٹیلی جینس کا تبادلہ معطل کرنے کا فیصلہ بھی واپس لے لیا ہے۔
دوسری جانب امریکہ کے وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے جی سیون اجلاس میں شرکت کے لیے جاتے ہوئے ایک بیان میں کہا کہ امریکہ چاہتا ہے کہ روس غِیر مشروط طور پر معاہدے کو تسلیم کر لے۔
انہوں نے کہا کہ اگر جنگ بندی تجویز پر ماسکو کا جواب ’ہاں‘ میں ہوتا ہے تو ہم سمجھیں گے کہ ہم نے درست سمت میں پیش رفت کی ہے اور امن کے لیے حقیقی امکانات پیدا ہوگئے ہیں۔
مارکو روبیو کے مطابق اگر ماسکو کا جواب ’نہیں‘ ہوتا ہےتو یہ بدقسمتی کی بات ہوگی اور اس سے ان کے ارادے واضح ہوجائیں گے۔
اس خبر کے لیے معلومات خبر رساں ادارے اے ایف پی سے لی گئی ہیں۔
فورم