رسائی کے لنکس

ٹی ٹی پی سےمذاکرات: پیپلز پارٹی اوراے این پی کا پارلیمان کو اعتماد میں لینے کا مطالبہ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

ایک ایسے وقت میں جب کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ افغان طالبان کے ذریعے اسلام آباد کی بات چیت کا عمل جاری ہے حکومت کی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے اس بات چیت کے بارے میں پارلیمان کو اعتماد میں لینے کا مطالبہ کر تے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمنٹ ہی مذاکرات سے متعلق فیصلے کرنے کی مجاز ہے۔

ٹی ٹی پی سے پاکستانی حکام اور بعض قبائلی عمائدین کی بات چیت اپریل میں شروع ہوئی تھی۔ بعض قبائلی عمائدین توقع ظاہر کر چکے ہیں کہ اس بات چیت میں پیش رفت کا امکان ہے۔ لیکن بعض مبصرین سمجھتے ہیں کہ ٹی ٹی پی کی طرف سے بات چیت کے دوران سامنے آنے والے مطا لبات اور شرائط نہایت سخت ہیں اور پاکستان کے لیے بطور ریاست ان مطالبات کو منظور کرنا ممکن نہیں ہوگا۔

عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے رہنما بھی ان مذاکرات پر تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔ اور اے این پی کی قیادت طالبان کے ساتھ معاملات کو پارلیمان میں پیش کرنے پر زور دے رہی ہے۔

’مذاکرات کی ضرورت کیوں پیش آئی؟‘

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی صدارت میں اتوار کو ہونے والے اجلاس میں ٹی ٹی پی سے بات چیت کے معاملے کو پارلیمان میں زیرِ بحث لانے کے لیے دیگر جماعتوں سے رابطوں اور مشاورت کے لیے تین رکنی کمیٹی قائم کی گئی ہے۔

مذاکرات کے حوالے سے پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل فرحت اللہ بابر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ سوال اہم ہے کہ شدت پسند گروہ کے ساتھ بات چیت کیسے شروع ہوئی اور اس کی ضرورت کیوں پیش آئیَ؟

فرحت اللہ بابر نے پیپلز پارٹی کا مؤقف دہراتے ہوئے کہا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت کی افادیت اور ضرورت کو پارلیمان میں زیرِ بحث لایا جائے۔ اس بات کا فیصلہ کرنے کا اختیار صرف پارلیمان کے پاس ہے کہ یہ بات چیت ہونی چاہیے یا نہیں اور ان مذاکرات کے کیا خدوخال ہونے چاہیئں۔

پیپلز پارٹی کے رہنما کے مطابق جب یہ دعوے کیے جاتے رہے ہیں کہ شدت پسند گروہوں کی کمر توڑ دی گئی ہے تو پھر ان سے بات چیت کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے؟

انہوں نے زور دے کر کہا کہ تمام معاملات کے بارے میں منتخب پارلیمان کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔

ممکنہ معاہدے کے لیے آئینی تحفظ ضروری

تحریکِ طالبان پاکستان سمیت مختلف شدت پسندوں گروہوں سے ماضی میں پاکستان کی حکومت کئی بارے سمجھوتے کر چکی ہے تاہم یہ سمجھوتے ناکام ہوتے رہے ہیں ۔تجزیہ کار سید اختر علی شاہ کہتے ہیں کہ اب یہ ضروری ہے کہ کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ ہونے و الی بات چیت اور کسی ممکنہ معاہدے کی منظوری پارلیمان سے لی جائے تاکہ اس معاہدے کو آئینی تحفظ حاصل ہو سکے۔

دوسری جانب پشاور یونیورسٹی کے تحقیقاتی تدریسی کے ادارے ایریا اسٹڈی سینٹر کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر حسین شہید سہروردی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ایک آئینی جمہوری ریاست ہے۔ اس قسم کے حساس معاملات کو پارلیمان ہی میں حل ہونا چاہیے۔

رواں ماہ کے آغاز میں خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں سےتعلق رکھنے والے عمائدین پر مشتمل 50 رکنی قبائلی جرگہ نے کابل میں ٹی ٹی پی کے کمانڈروں سے ملاقات کی تھی ۔ اس دوران ٹی ٹی پی کے طرف سے قبائلی علاقوں کی سابق آزاد حیثیت کی بحالی، ان علاقوں سے سیکیورٹی فورسز کے انخلا اور ٹی ٹی پی سے وابستہ افراد کی آزادنہ نقل و حرکت کے مطالبات سامنے رکھے گئے تھے۔

مذاکرات کے حوالے سے دفاعی امور کے مبصر اکرام سہگل کہتے ہیں کہ کسی بھی شدت پسند گروہ سے بات چیت آئین اور قانون کے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے ہونی چاہیے۔

اکرام سہگل کہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی جب تک پاکستان کے آئین اور قانون کو قبول نہیں کرے گی۔ اس وقت تک ان سے بات چیت نہیں ہونی چاہیے۔ شدت پسند گروہ کے مطالبات کو پاکستان کی حکومت کے لیے ماننا شاید آسان نہ ہو۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر بعض شدت پسند عناصر جو سنگین جرائم میں ملوث نہیں ہیں اور وہ قابلِ اصلاح ہیں انہیں مرکزی سیاسی دھارے میں شامل ہونے کا موقع ملنا چاہیے لیکن وہ عناصر جو سنگین جرائم میں ملوث ہیں انہیں رعایت نہیں ملنی چاہیے۔ ٹی ٹی پی سے مذاکرات کامیاب ہونے کا امکان کم ہے کیوں کہ ان کے مطالبات کو پاکستان کے آئین و قانون کے تحت تسلیم کرنا شاید ممکن نہیں ہے۔

ٹی ٹی پی سے بات چیت کے حوالے سے وفاقی وزیرِ اطلاعات مریم اورنگزیب کہہ چکی ہیں کہ شدت پسند گروہ سے مذاکرات 2021 سے حکومتی سطح پر ہو رہے ہیں۔ یہ مذاکرات افغانستان میں طالبان کی حکومت کی ذریعے کیے جا رہے ہیں۔

انہوں نے عندیہ دیا تھا کہ شدت پسند گروہ سے ہونے والی بات چیت کے دوران فیصلوں کی منظور ی پاکستان کی پارلیمان ہی دے گی۔

XS
SM
MD
LG