رسائی کے لنکس

نتاشہ کول کو بھارت سے برطانیہ واپس بھیجنے پر تنازع؛ 'مودی حکومت عوا'می آوازوں پر یقین نہیں رکھتی


  • حکومتِ کرناٹک کی دعوت پر بھارت آئی تھی: نتاشا کول
  • نتاشا کول پاکستان کی ہمدرد ہیں: صدر بی جے پی کرناٹک
  • سب کو حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرنے کا حق ہے: آئیڈوا

بھارت کی ریاست کرناٹک کی حکومت کی دعوت پر بھارت آنے والی کشمیری نژاد پروفیسر اور مصنفہ نِتاشا کول کو بنگلور ایئرپورٹ کے امیگریشن عملے کی جانب سے برطانیہ واپس بھیجنے پر تنازع کھڑا ہو گیا ہے۔

اس معاملے پر بھارت کی اپوزیشن جماعت اور کرناٹک میں برسرِ اقتدار کانگریس پارٹی اور مرکزی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے درمیان الزام اور جوابی الزام کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔

بعض تجزیہ کار نِتاشا کی حمایت اور امیگریشن عملے پر تنقید کر رہے وہیں کچھ حکومت کے اس قدم کی تائید بھی کر رہے ہیں۔

یاد رہے کہ کرناٹک کے سماجی فلاح و بہبود کے وزیر ایچ سی مہادیوپا نے نِتاشا کول کو 24 اور 25 فروری کو بنگلور میں ہونے والی 'آئین اور بھارت کا اتحاد' نامی کانفرنس سے خطاب کے لیے مدعو کیا تھا۔

نتاشا کا کہنا ہے کہ وہ حکومتِ کرناٹک کی دعوت پر بھارت آئی تھیں لیکن انہیں بنگلور ایئرپورٹ سے حراست میں لیا گیا اور 72 گھنٹے روکنے کے بعد واپس برطانیہ بھیج دیا گیا۔

نتاشا کول نے ایکس پر اپنی پوسٹ میں لکھا کہ وہ 23 فروری کو برٹش ایئر ویز کے طیارے سے لندن سے بنگلور پہنچی تھیں۔

ان کے مطابق انہیں روکنے اور واپس کرنے کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔ البتہ امیگریشن عملے نے صرف اتنا کہا کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ ہمیں دہلی سے آرڈر ملا ہے۔

مصنفہ کے مطابق وہ امیگریشن کاؤنٹر پر ادھر سے ادھر دوڑتی رہی اور پھر انہیں 24 گھنٹے ایک سیل میں رکھا گیا جہاں ان کی سی سی ٹی وی کیمرے سے نگرانی ہوتی رہی۔

ان کے بقول وہ بہت چھوٹی جگہ تھی۔ درجنوں فون کالز کے باوجود امیگریشن کے عملے نے انہیں کچھ کھانے پینے کو نہیں دیا اور کئی گھنٹے گزرنے کے بعد لندن جانے والے طیارے میں سوار کر دیا گیا۔

کرناٹک کے وزیر ایچ سی مہادیوپا نے نتاشا کول کو واپس بھیجنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ ہمیں اظہارِ آزادی رائے اور جمہوریت کے حق میں آواز بلند کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔

ایچ سی مہادیوپا کا کہنا تھا کہ "ہم جانتے ہیں کہ بی جے پی آئین کے خلاف رہی ہے۔ نتاشا کو واپس کرنا ریاستی حکومت کی توہین ہے۔"

دوسری جانب ریاست کرناٹک کے بی جے پی کے صدر وجیندر نے نتاشا کول کو روکنے پر امیگریشن عملہ کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے نتاشا کول کو پاکستان کا ہمدرد قرار دیا۔

وجیندر نے نتاشا کو کانفرنس میں مدعو کرنے پر وزیرِ اعلیٰ سدھار میہ پر تنقید کی اور سوال کیا کہ کیا وہ نتاشا کو بلا کر آئین کو چیلنج کرنے اور ملک کی یکجہتی کے لیے خطرہ پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ انہوں نے نتاشا کول کو بھارت مخالف گروہ 'ٹکڑے ٹکڑے گینگ' کا حصہ بتایا۔

'حکومت اختلافِ رائے پسند نہیں کرتی'

نئی دہلی کی انسانی حقوق کی سرگرم تنظیم 'آل انڈیا ڈیموکریٹک ویمن ایسوسی ایشن' (آئیڈوا) کی جنرل سیکریٹری مریم دھاولے نے دہلی حکومت کی جانب سے نتاشا کول کو واپس کیے جانے پر سخت اعتراض کیا اور اسے اظہار کی آزادی کے منافی قرار دیا۔

مریم دھاولے نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یہ حکومت کسی بھی قسم کی اختلافِ رائے پسند نہیں کرتی۔ وہ چوں کہ دوسرے ملک سے آئی تھیں اس لیے انہیں واپس بھیج دیا گیا۔ ورنہ اگر وہ یہیں رہ رہی ہوتیں تو انہیں بھی دوسرے صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے مانند جیل میں ڈال دیا گیا ہوتا۔

ان کے بقول مودی حکومت عوامی آوازوں پر یقین نہیں رکھتی۔ حالاں کہ سب کو حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرنے کا حق ہے اور یہ حق آئین نے انہیں دیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ حکومت اپنے خلاف بولنے والے اپوزیشن رہنماؤں پر 'انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ' (ای ڈی) کے چھاپے ڈلوا دیتی ہے اور دیگر طریقوں سے بھی انہیں پریشان کرتی ہے۔

کیا آرٹیکل 370 کی منسوخی سے جمّوں و کشمیر میں خوش حالی آئی ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:57 0:00

خیال رہے کہ حکومت اس قسم کے الزامات کی تردید کرتی ہے۔ وہ اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف ای ڈی کے استعمال کے الزام کو بھی مسترد کرتی ہے اور کہتی ہے کہ جو بھی بد عنوانی میں ملوث پایا جائے گا اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

میڈیا رپورٹس میں بعض بیانات کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ نتاشا کول کو اس لیے واپس کر دیا گیا کیوں کہ انہوں نے ایک پاکستانی شخص سے شادی کی ہے جب کہ وہ چین کا مہرہ اور مغرب کی کٹھ پتلی ہیں۔

نتاشا نے سوشل میڈیا پوسٹ میں ان الزامات کی تردید کی ہے اور اسے دروغ بیانی قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے کسی پاکستانی سے شادی نہیں کی ہے۔ اور وہ نہ تو چین کا مہرہ ہیں، نہ مغرب کی کٹھ پتلی، نہ کمیونسٹ، نہ جہادی، نہ پاکستان کی ہمدرد، نہ دہشت گردی کی حامی، نہ بھارت مخالف اور نہ ہی کسی گینگ کا حصہ ہیں۔

ان کے بقول وہ آمریت مخالف اور جمہوریت کی حامی ہیں۔ انہیں ہندوتوا نظریات کے خلاف بولنے پر قتل کرنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ ان کے مطابق ان کے علمی و ادبی کاموں اور جمہوری افکار کی وجہ سے عالمی سطح پر ان کا احترام کیا جاتا ہے۔

نِتاشا کول کون ہیں؟

نِتاشا کول کا تعلق ڈاؤن ٹاؤن سرینگر سے ہے اور ان کی پیدائش اترپردیش کے گورکھپور میں ہوئی ہے۔ وہ 'اوورسیز سٹیزن آف انڈیا' (او سی آئی) کارڈ ہولڈر ہیں۔

انہوں نے سری رام کالج آف کامرس دہلی یونیورسٹی سے بی اے آنرز، معاشیات میں ایم اے اور 2023 میں برطانیہ کی ایک یونیورسٹی سے معاشیات اور فلسفے میں پی ایچ ڈی کیا۔

وہ لندن کی ویسٹ منسٹر یونیورسٹی میں عالمی تعلقات اور سیاسیات کی پروفیسر ہیں۔

انہوں نے برسٹل بزنس اسکول میں 2002 سے 2007 تک اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ سن 2007 میں معاشیات اور فلسفے پر ان کی کتاب بھی شائع ہوئی۔

نتاشہ کول سن 2018 میں 'اکانومک اینڈ پولیٹیکل ویکلی' کے خصوصی شمارے کی شریک مدیر رہیں جس نے 'کشمیر میں خواتین' کے موضوع پر خصوصی اشاعت کی تھی جب کہ کشمیر کی خواتین کے سلسلے میں ایک کتاب ایڈٹ کی ہے۔

انہوں نے 2019 میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد انسانی حقوق کے موضوع پر امریکی کانگریس میں خطاب کیا تھا اور انٹرنیٹ کی بندش کے خاتمے کا مطالبہ کیا تھا۔

پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر محبوبہ مفتی نے نتاشا کے خلاف کارروائی کی مذمت کی ہے اور بی جے پی حکومت پر پاسپورٹ کو ہتھیار بنانے اور اپنے خلاف بولنے والوں کو سزا دینے کا الزام عائد کیا ہے۔

تاہم کچھ لوگوں نے نتاشا کے نظریات کی مخالفت کی جن میں سابق سیکریٹری خارجہ کنول سبل بھی شامل ہیں۔ کنول سبل اس وقت نئی دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے چانسلر ہیں۔

انہوں نے سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ ہم نے کشمیر کے معاملے پر بی جے پی کے خلاف ان کی بے قابو زہر افشانی کی ویڈیو دیکھی ہے۔ وہ خود کو مظلوم ثابت کر رہی ہیں اور یہ تاثر دینا چاہتی ہیں کہ انہیں خود کے واپس کیے جانے کی وجہ نہیں معلوم ہے۔

کنول سبل کے بقول نتاشا کو ایک شرارت کے تحت مدعو کیا گیا تھا اور حکومت نے بجا طور پر ان کو بھارت میں داخل ہونے سے روکا ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG