خیبرپختونخوا کے صوبائی وزیر کو بھتہ دینے کے لیے ٹی ٹی پی کا مبینہ خط موصول
خیبر پختونخوا کے صوبائی وزیرِ خوراک عاطف خان نے تسلیم کیا ہے کہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے ان کو بھتہ دینے کے لیے مبینہ خط ارسال کیا ہے۔
میڈیا سے گفتگو میں عاطف خان نے کہا کہ ان کو ایک خط موصول ہوا ہے اور اس میں بھتہ دینے کے لیے کہا گیا تھا۔ انہوں نے متعلقہ اداروں سے اس حوالے سے رابطہ کر لیا ہے باقی کارروائی وہ کریں گے۔
انہوں اس بات سے لاعلمی ظاہر کی کہ کسی اور کو بھی ایسا کوئی خط موصول ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ اداروں کو آگاہ کر چکے ہیں، اب اس پر کارروائی کرنا سیکیورٹی اداروں کا کام ہے۔
مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق ٹی ٹی پی کے لیٹر ہیڈ پر ارسال کیے گئے خط میں 80 لاکھ روپے بھتہ دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ: ’سارا پیسہ اور کاروبار تو فوج کے پاس ہے، نیب قانون میں استثنیٰ کیوں دیا گیا؟‘
سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کے قانون میں ترامیم کے خلاف پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی درخواست پر سماعت پیر تک ملتوی کر دی ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے بدھ کو کیس کی سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ شامل ہیں۔
عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے درخواست پر دلائل دیے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ بنیادی انسانی حقوق کے بارے میں بھی توازن ہوتا ہے۔ عام شہری کے حقوق ہیں تو دوسری طرف قومی مفاد اور معاشرے کے بھی بنیادی حقوق ہیں۔ دونوں کے مابین توازن ہونا چاہیے۔ انفرادی فائدہ ملنے کو معاشرے کے حقوق کے ساتھ نہیں جوڑا جا سکتا۔
پی ٹی آئی کی درخواست پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نیب قانون عوامی مفاد کے لیے نقصان دہ کیسے ہے، یہ سوال اہم ہے۔
تحریکِ انصاف کے وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ 50 کروڑ روپے کی کرپشن پر نیب کی کارروائی کی حد کم کرکے 10کروڑ بھی ہو سکتی ہے۔ پی ٹی آئی کو نیب قانون کا اطلاق ماضی سے کرنے پر اعتراض ہے۔
درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ نئی ترامیم کے بعد نیب قانون سے بچ نکلنے پر دوسرے قانون کا اطلاق ہو جائے گا۔ درخواست پر دلائل سے ایسا لگتا ہے احتساب صرف نیب کر سکتا ہے۔ احتساب کے لیے دیگر ادارے بھی موجود ہیں۔
بینچ میں شامل جسٹس اعجاز الااحسن نے کہا کہ اختیارات کے ناجائز استعمال کا جرم کسی دوسرے قانون میں نہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ نیب قانون کے مطابق ججز کو استثنیٰ نہیں۔ ججز کے حوالے سے کوئی پردہ داری ہو تو علیحدہ بات ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ پاکستان کی فوج کو نیب قانون سے استثنیٰ کیوں دیا گیا ہے؟ سارا پیسہ اور کاروبار تو فوج کے پاس ہے۔ کیا فوج احتساب سے بالاتر ہے؟
ان کا مزید کہنا تھا کہ ملک میں سب سے بڑا کاروبار فوج کرتی ہے۔ عمران خان نے فوج کے احتساب کا نکتہ درخواست میں کیوں نہیں اٹھایا؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا کوئی رہ گیا ہے جسے نیب قانون سے استثنی نہ ملا ہو۔ تحصیل کونسل کے چیئرمین اور وائس چیئرمین کے فیصلے بھی مستثنیٰ ہوگئے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ کے مطابق مالی فائدہ ثابت کیے بغیر کسی فیصلے کو غلط نہیں کہا جا سکتا۔ بظاہر افسران کو عوامی عہدیداران کو فیصلہ سازی کی آزادی دی گئی ہے۔
عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ایسے فیصلہ سازوں سے ہی ماضی میں آٹھ ارب سے زائد ریکوری ہوئی۔
اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا ریکوری عوامی عہدیداران سے ہوئی تھی؟ ہر سرکاری فیصلے کا کسی نہ کسی طبقے کو فائدہ ہوتا ہی ہے۔
پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ جب تک پہنچایا گیا فائدہ غیر قانونی نہ ہو تو کوئی قباحت نہیں۔ مخصوص افسر کو غیر قانونی فائدہ پہنچانے پر کارروائی نہ ہونا غلط ہے۔ کسی ریگولیٹری اتھارٹی اور سرکاری کمپنی پر نیب ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔
پاکستان کو سودی نظام سے نکالنے کی کوشش ہے‘
وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ کوشش ہوگی پاکستان کو سودی نظام سے نکالوں۔ پہلے بھی پاکستان کو اس نظام سے نکالنے کی کوشش کی ہے۔
اسلام آباد میں کانفرنس سے خطاب کے بعد میڈیا سے گفتگو میں اسحاق ڈار نے کہا کہ کوشش ہو گی پاکستان کو مرحلہ وار سودی نظام سے نکالیں۔
ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے پاکستان کا نام نکلنے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ جمعے کو ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے خبر سامنے آئے گی۔ ایف اے ٹی ایف اجلاس سے قبل کوئی اعلان نہیں کر سکتے۔ ویسے اچھی خبر کی امید ہے۔
روس سے تیل کے حصول پر انہوں نے کہا کہ پاکستان روس سے تیل کے حصول کے لیے اپنے مفاد میں فیصلہ کرے گا۔ امریکہ کے دورے میں یہ باور کرایا ہے کہ اگر اسلام آباد کو بھارت سے زیادہ بہتر قیمت پر تیل ملا تو پاکستان اپنے مفاد میں فیصلہ کرے گا۔
غیرملکی صحافی کو لاہور ایئرپورٹ پر روک لیا، آٹھ گھنٹے بعد داخلے کی اجازت
صحافی اور کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) کے سینئر پروگرام کنسلٹنٹ اسٹیون بٹلر کو آٹھ گھنٹنے تک روکنے رکھنے کے بعد پاکستان میں داخلے کی اجازت دی دی گئی۔
اسٹیون بٹلر عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں شرکت کے لیے رات گئے پاکستان پہنچے تھے جہاں لاہور ایئرپورٹ پر انہیں روک لیا گیا تھا۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے ضیاء الرحمٰن کے مطابق ذرائع کا کا کہنا ہے کہ اسٹیون بٹلر کو امیگریشن حکام نے لگ بھگ آٹھ گھنٹے روکا۔ ذرائع کے مطابق اسٹیو بٹلر کا نام 'اسٹاپ لسٹ' میں شامل تھا۔
ایئرپورٹ حکام کا کہنا ہے کہ اسٹیون بٹلر کو روکنے کے بعد ایف آئی اے امیگریشن نے وزارتِ داخلہ سے رابطہ کیا جس کے بعد وزارتِ داخلہ کی منظوری سے انہیں پاکستان میں داخلے کی اجازت دے دی گئی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ صحافی اسٹیون بٹلر کو 2019 میں پاکستان آنے پر ڈی پورٹ کردیا گیا تھا۔