عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت شروع
اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق وزیرِاعظم عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت شروع ہوگئی ہے۔
ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔
عمران خان نے گزشتہ دنوں ایک تقریر کے دوران خاتون جج زیبا چوہدری کے خلاف متنازع بیان دیا تھا جس پر ان پر توہین عدالت کے مقدمے کا آغاز ہوا تھا۔
توقع تھی عمران خان غلطی تسلیم کرتے ہوئے معذرت کرلیں گے: چیف جسٹس
اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے عمران خان کے وکیل حامد خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے مؤکل سے توقع نہیں تھی کہ وہ ایسا بیان دیں گے۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ ماتحت عدلیہ بہت مشکل حالات میں کام کر رہی ہے، مجھے توقع تھی کہ آپ کے مؤکل غلطی تسلیم کرتے ہوئے معذرت کرلیں گے۔
انہوں نے کہا کہ تحریری معافی سے انہیں کوئی ذاتی فائدہ نہیں ہے۔ ایک بڑے لیڈر سے توقع ہوتی ہے کہ وہ ہر لفظ بہت محتاط ہوکر بولیں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ گزشتہ تین برسوں میں اس عدالت نے ٹارچر کو ایک اہم معاملے کے طور پر اٹھایا، سب سے اہم نوعیت کا معاملہ اظہارِ آزادی کا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ تین برسوں میں اس عدالت نے ایسے معاملات وفاقی کابینہ کو بھجوائے۔ اگر ماضی میں ٹارچر کے معاملات کو دیکھا جاتا تو نہ لاپتا افراد ہوتے، نہ بلوچ طلبہ کا مسئلہ ہوتا اور نہ ہی تشدد ہوتا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کے مؤکل کو احساس نہیں کہ کیا ہوتا رہا ہے۔
عمران خان کے خلاف توہینِ عدالت کیس کی سماعت کا احوال
عمران خان کو سات روز میں دوبارہ جواب جمع کرانے کا حکم
اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیرِاعظم عمران خان کو توہین عدالت کیس میں سات روز میں دوبارہ جواب جمع کرانے کا حکم دے دیا ہے۔ عدالت نے تین وکلا کو عدالتی معاونت کے لیے مقرر کردیا ہے۔ ان وکلا میں منیر اے ملک، مخدوم علی خان اور پاکستان بار کونسل کا نمائندہ شامل ہوں گے۔
بدھ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔آج کی سماعت میں عمران خان عدالت کی جانب سے طلب کیے جانے پر پیش ہوئے۔
واضح رہے کہ تحریکِ انصاف کے رہنما شہباز گل کی گرفتاری اور سیشن جج کی جانب سے ان کا جسمانی ریمانڈ منظور کیے جانے پر عمران خان نے شدید غصے کا اظہار کیا تھا۔انہوں نے اپنی جماعت کے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے اسلام آباد پولیس کے آئی جی، ڈی آئی جی اور ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری کے خلاف ایکشن لینے کا کہا تھا۔ اس معاملے پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار کے نوٹ پر کارروائی کا آغاز ہوا تھا جب کہ پولیس افسران اور عدالتی افسر کو دھمکانے کے الزام میں دہشت گردی کی دفعہ کے تحت ان پر مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے عمران خان کے وکیل حامد خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے مؤکل سے توقع نہیں تھی کہ وہ ایسا بیان دیں گے۔ انہوں نے ریمارکس دیے کہ ماتحت عدلیہ بہت مشکل حالات میں کام کر رہی ہے، مجھے توقع تھی کہ آپ کے مؤکل غلطی تسلیم کرتے ہوئے معذرت کرلیں گے۔
انہوں نے کہا کہ تحریری معافی سے انہیں کوئی ذاتی فائدہ نہیں ہے۔ ایک بڑے لیڈر سے توقع ہوتی ہے کہ وہ ہر لفظ بہت محتاط ہوکر بولیں گے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ گزشتہ تین برسوں میں اس عدالت نے ٹارچر کو ایک اہم معاملے کے طور پر اٹھایا، سب سے اہم نوعیت کا معاملہ اظہارِ آزادی کا ہے۔
عدالت میں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ توہین عدالت بہت سنجیدہ معاملہ ہے، عدالت نے اس کے وقار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا، یہ عدالت آزادئ اظہار رائے پر یقین کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جتنی تنقید ہم پر ہو رہی ہے، ہم ایکشن لیتے تو کئی لوگ چھ ماہ کے لیے جیل میں ہوتے، عدلیہ کے خلاف ایک باقاعدہ مہم چلائی گئی لیکن اس عدالت نے ایسی باتوں کی پرواہ نہیں کی۔
چیف جسٹس نے حامد خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے مؤکل نے عوامی جلسے میں کہا کہ عدالت 12 بجے کیوں کھلی؟ عدالتیں جواب نہیں دے سکتیں، یہ عدالت کسی بھی کمزور اور آئین کے لیے 24 گھنٹے کھلی ہے۔ انہوں نے ریمارکس دیے کہ کوئی مسٹر ایکس اور وائی نہیں، وہ سب ججز ہیں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ہم ایک بات کی یقین دہانی کراتے ہیں کہ ہم شفاف انداز میں چلیں گے۔ ہم توہین عدالت کے قانون کا غلط استعمال نہیں کریں گے نہ ہی کسی کو کرنے دیں گے۔
عدالتی ریمارکس کے بعد حامد خان نے مؤقف اپنایا کہ عمران خان نے شہباز گل پر تشدد اور خاص طور پر جنسی تشدد کی بات سن کر یہ بیان دیا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ لیکن یہ معاملہ تو عدالت میں زیر سماعت تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں، نہال ہاشمی اور طلال چوہدری کیس میں سزا دی جاچکی ہے۔
بینچ کے رکن جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ جو جواب دیا گیا ہے، اس کے مطابق کیس چلانا بنتا ہے۔ آپ سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں کہ آپ نے کیا کرنا ہے۔
بعد ازاں عدالت نے عمران خان کو سات روز میں دوبارہ جواب جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کردی۔