واشنگٹن —
پاکستان کی تہہ در تہہ پیچیدہ صورتحال کااندازہ تو اکثر لوگوں کو تھا، لیکن کون سوچ سکتا تھا کہ اس کا ایک جان لیوا پہلو پولیو کےخطرناک مرض کی واپسی اور عالمی ادارہ صحت کی طرف سے لازمی ویکسینیشن کی پابندیوں کی صورت میں سامنے آئے گا؟
صرف دو سال پہلے تک دنیا پولیو کے مرض پر قابو پانے کے قریب تھی، لیکن اس سال کے ابتدائی چار ماہ کے دوران دنیا میں پولیو کے سامنے آنے والے کل کیسز میں سے 58 صرف پاکستان میں تشخیص ہوئے ہیں، جن میں سے 40 قبائلی علاقہ جات میں ہیں۔
واشنگٹن کے 'ووڈرو ولسن سینٹر' میں جنوبی اور وسطی ایشیا پروگرام سے منسلک، امریکی تجزیہ کار مائیکل کوگل مین کا کہنا ہے کہ اگر وزیر اعظم نواز شریف بیرون ملک پاکستان کا ایک سرمایہ کار دوست ملک ہونے کا تاثر قائم کرنا چاہتے ہیں، تو ان کی حکومت پولیو کا پھیلاؤ روکنے کے لئے عالمی ادارہ صحت کی تجویز کردہ پابندیوں کا اطلاق ضرور کرائے گی۔
مائیکل کوگل مین کا کہنا تھا کہ پاکستان میں پولیو کی اتنی قوت سے واپسی کا سب سے زیادہ الزام تو یقیناً طالبان کے حملوں پر عائد ہوتا ہے، جبکہ پولیو کے خاتمے کی سرکاری پالیسیاں بھی اب تک غیر موثر رہی ہیں۔
تاہم، مائیکل کوگل مین کے بقول، "یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اسامہ بن لادن کی گرفتاری کے لئے سی آئی اے کی جعلی ویکسینیشن مہم کے بعد پولیو مہم کے بارے میں شکوک و شبہات میں مزیداضافہ ہوا ہے"۔
مائیکل کوگل مین کے خیال میں پولیو کا خاتمہ، پاکستانی حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے ایجنڈے کا حصہ نہیں بنے گا۔
'اردو وی او اے' کے پروگرام 'انڈیپینڈنس ایونیو' میں بات کرتے ہوئے پاکستان علماء کونسل کے چئیرمین حافظ طاہر محمود اشرفی نے کہا کہ پاکستان میں پولیو کی واپسی کی ذمہ داری صحت کے بین الاقوامی اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں پر عائد ہوتی ہے، جو نہیں چاہتے کہ پاکستان سے پولیو کا خاتمہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ علمائے کرام کو کبھی پولیو کی کسی عوامی بیداری مہم کا حصہ نہیں بنایا گیا، جیسے کرکٹرز اور شو بزنس کے ستاروں کو بنایا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیو مہم میں علماء کو شامل کر کے عوام کے دلوں سے ویکسینز کے بارے میں غلط فہمیاں اور شبہات دور کئے جا سکتے ہیں۔
پاکستان میں عالمی ادارہ صحت کے پولیو پروگرام کے سربراہ ڈاکٹر زبیر مفتی کا کہنا تھا کہ صحت کے بین الاقوامی ادارے پاکستان کو حالیہ تجویز کردہ پولیو پابندیوں پر عمل درآمد میں ہر ممکن تعاون فراہم کریں گے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان سے بیرون ملک سفر کرنے والوں کے لئے اضافی پولیو ویکسین کی فراہمی اور اس کے اخراجات محکمہ صحت کے موجودہ وسائل کے اندر رہ کر کرنا ممکن ہے۔
صوبہ خیبر پختون خواہ میں اقوام متحدہ کے چلڈرن فنڈ، 'یونی سیف' کے آپریشنز ہیڈ ڈاکٹر محمد رفیق کا کہنا تھا کہ قبائلی علاقہ جات میں والدین کی اکثریت اپنے بچوں کو ویکسین کے قطرے پلوانے کے حق میں ہے۔ کئی والدین شہروں میں جاکر بچوں کو پولیو کے قطرے پلوا بھی رہے ہیں ہر شخص کے لئے ایسا کرنا ممکن نہیں۔
انہوں نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت کی طرف سے تجویز کردہ پابندیاں حیران کن نہیں، کیونکہ اپنے بچوں کو بیماریوں سے محفوظ رکھنے کی ہرممکن کوشش کرنا ہر ملک کا حق ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان سے حج اور عمرے پر جانے والے ہر شخص کے لئے ویکسین لگوانے کی پابندی پہلے ہی موجود ہے، ایسے میں تازہ ترین پابندیوں کا جواز موجود اور اطلاق ممکن ہے۔ کوشش یہ ہونی چاہئے کہ پولیو پر قابو پانے کی کوشش میں حکومت، صحت کے بین الاقوامی ادارے اور والدین سب اپنا کردار کریں، جبکہ پولیو ٹیموں کی حفاظت کے لئے درکار اضافی حفاظتی اقدامات کرنے بھی لازمی ہیں۔
غیر سرکاری تنظیم 'ٹرسٹ فار ویکسینز اینڈ امیونائزیشن (ٹی وی آئی)' سے وابستہ ہیلتھ ریسرچر ڈاکٹر نور صباح رخشانی کا کہنا تھا کہ پاکستان پر بلا تخصیص سفری پابندیاں عائد کرنے کے بجائے بہتر یہ ہوگا کہ ملک کے ہر شہر اور دیہات کے بنیادی مراکز صحت میں پولیو ویکسین کی فراہمی یقینی بنائی جائے اور لوگوں کو روٹین امیونائزیشن کی طرف زیادہ سرگرمی سے راغب کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت کراچی کے کئی مراکز صحت میں پولیو ویکسین موجود ہی نہیں۔ ویکسین کی کھیپ جب بندرگاہ پر پہنچتی ہے تو کئی گھنٹے تک کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا کہ ویکسین کی کنسائنمنٹ کو، جسے موثر حالت میں رکھنے کے لئے ایک مخصوص درجہ حرارت پر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے، کون وصول کرے گا؟ وہ کیسے زیادہ دیر قابل استعمال رہے گی، یعنی ویکسین کی رسد کا ٹمپریچر کنٹرولڈ نظام موجود ہی نہیں۔ ایسے میں پولیو ویکسین ہر عمر کے افراد کو یقینی طور پر پلا بھی دی جائے، تو بھی پولیو کا خاتمہ اتنا سادہ معاملہ نہیں ہے۔
اطلاعات کے مطابق حکومت سندھ نے عالمی ادارہ صحت کی نئی پابندیوں کا اطلاق شروع کر دیا ہے۔ جبکہ گزشتہ روز صحت کی وفاقی وزیر مملکت سائرہ افضل تارڑ نے کہا تھا کہ اس بارے میں کوئی لائحہ عمل بنانے کے لئے عالمی ادارہ صحت سے دو ہفتے کی مہلت مانگی گئی ہے۔
عالمی ادارہ صحت نے پیر کو پاکستان پر نئی سفری پابندیا ں عائد کرنے کی سفارش کی تھی جس کے تحت بیرون ملک سفر کرنے والے پاکستانیوں یا طویل قیام کے بعد پاکستان سے واپس جانے والے ہر عمر کے مسافروں پر سفر سے کم از کم ایک مہینہ پہلے پولیو ویکسینیشن کروانا اور اس کا ثبوت پیش کرنا لازم ہوگا۔
صرف دو سال پہلے تک دنیا پولیو کے مرض پر قابو پانے کے قریب تھی، لیکن اس سال کے ابتدائی چار ماہ کے دوران دنیا میں پولیو کے سامنے آنے والے کل کیسز میں سے 58 صرف پاکستان میں تشخیص ہوئے ہیں، جن میں سے 40 قبائلی علاقہ جات میں ہیں۔
واشنگٹن کے 'ووڈرو ولسن سینٹر' میں جنوبی اور وسطی ایشیا پروگرام سے منسلک، امریکی تجزیہ کار مائیکل کوگل مین کا کہنا ہے کہ اگر وزیر اعظم نواز شریف بیرون ملک پاکستان کا ایک سرمایہ کار دوست ملک ہونے کا تاثر قائم کرنا چاہتے ہیں، تو ان کی حکومت پولیو کا پھیلاؤ روکنے کے لئے عالمی ادارہ صحت کی تجویز کردہ پابندیوں کا اطلاق ضرور کرائے گی۔
مائیکل کوگل مین کا کہنا تھا کہ پاکستان میں پولیو کی اتنی قوت سے واپسی کا سب سے زیادہ الزام تو یقیناً طالبان کے حملوں پر عائد ہوتا ہے، جبکہ پولیو کے خاتمے کی سرکاری پالیسیاں بھی اب تک غیر موثر رہی ہیں۔
تاہم، مائیکل کوگل مین کے بقول، "یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اسامہ بن لادن کی گرفتاری کے لئے سی آئی اے کی جعلی ویکسینیشن مہم کے بعد پولیو مہم کے بارے میں شکوک و شبہات میں مزیداضافہ ہوا ہے"۔
مائیکل کوگل مین کے خیال میں پولیو کا خاتمہ، پاکستانی حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے ایجنڈے کا حصہ نہیں بنے گا۔
'اردو وی او اے' کے پروگرام 'انڈیپینڈنس ایونیو' میں بات کرتے ہوئے پاکستان علماء کونسل کے چئیرمین حافظ طاہر محمود اشرفی نے کہا کہ پاکستان میں پولیو کی واپسی کی ذمہ داری صحت کے بین الاقوامی اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں پر عائد ہوتی ہے، جو نہیں چاہتے کہ پاکستان سے پولیو کا خاتمہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ علمائے کرام کو کبھی پولیو کی کسی عوامی بیداری مہم کا حصہ نہیں بنایا گیا، جیسے کرکٹرز اور شو بزنس کے ستاروں کو بنایا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیو مہم میں علماء کو شامل کر کے عوام کے دلوں سے ویکسینز کے بارے میں غلط فہمیاں اور شبہات دور کئے جا سکتے ہیں۔
پاکستان میں عالمی ادارہ صحت کے پولیو پروگرام کے سربراہ ڈاکٹر زبیر مفتی کا کہنا تھا کہ صحت کے بین الاقوامی ادارے پاکستان کو حالیہ تجویز کردہ پولیو پابندیوں پر عمل درآمد میں ہر ممکن تعاون فراہم کریں گے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان سے بیرون ملک سفر کرنے والوں کے لئے اضافی پولیو ویکسین کی فراہمی اور اس کے اخراجات محکمہ صحت کے موجودہ وسائل کے اندر رہ کر کرنا ممکن ہے۔
صوبہ خیبر پختون خواہ میں اقوام متحدہ کے چلڈرن فنڈ، 'یونی سیف' کے آپریشنز ہیڈ ڈاکٹر محمد رفیق کا کہنا تھا کہ قبائلی علاقہ جات میں والدین کی اکثریت اپنے بچوں کو ویکسین کے قطرے پلوانے کے حق میں ہے۔ کئی والدین شہروں میں جاکر بچوں کو پولیو کے قطرے پلوا بھی رہے ہیں ہر شخص کے لئے ایسا کرنا ممکن نہیں۔
انہوں نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت کی طرف سے تجویز کردہ پابندیاں حیران کن نہیں، کیونکہ اپنے بچوں کو بیماریوں سے محفوظ رکھنے کی ہرممکن کوشش کرنا ہر ملک کا حق ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان سے حج اور عمرے پر جانے والے ہر شخص کے لئے ویکسین لگوانے کی پابندی پہلے ہی موجود ہے، ایسے میں تازہ ترین پابندیوں کا جواز موجود اور اطلاق ممکن ہے۔ کوشش یہ ہونی چاہئے کہ پولیو پر قابو پانے کی کوشش میں حکومت، صحت کے بین الاقوامی ادارے اور والدین سب اپنا کردار کریں، جبکہ پولیو ٹیموں کی حفاظت کے لئے درکار اضافی حفاظتی اقدامات کرنے بھی لازمی ہیں۔
غیر سرکاری تنظیم 'ٹرسٹ فار ویکسینز اینڈ امیونائزیشن (ٹی وی آئی)' سے وابستہ ہیلتھ ریسرچر ڈاکٹر نور صباح رخشانی کا کہنا تھا کہ پاکستان پر بلا تخصیص سفری پابندیاں عائد کرنے کے بجائے بہتر یہ ہوگا کہ ملک کے ہر شہر اور دیہات کے بنیادی مراکز صحت میں پولیو ویکسین کی فراہمی یقینی بنائی جائے اور لوگوں کو روٹین امیونائزیشن کی طرف زیادہ سرگرمی سے راغب کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت کراچی کے کئی مراکز صحت میں پولیو ویکسین موجود ہی نہیں۔ ویکسین کی کھیپ جب بندرگاہ پر پہنچتی ہے تو کئی گھنٹے تک کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا کہ ویکسین کی کنسائنمنٹ کو، جسے موثر حالت میں رکھنے کے لئے ایک مخصوص درجہ حرارت پر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے، کون وصول کرے گا؟ وہ کیسے زیادہ دیر قابل استعمال رہے گی، یعنی ویکسین کی رسد کا ٹمپریچر کنٹرولڈ نظام موجود ہی نہیں۔ ایسے میں پولیو ویکسین ہر عمر کے افراد کو یقینی طور پر پلا بھی دی جائے، تو بھی پولیو کا خاتمہ اتنا سادہ معاملہ نہیں ہے۔
اطلاعات کے مطابق حکومت سندھ نے عالمی ادارہ صحت کی نئی پابندیوں کا اطلاق شروع کر دیا ہے۔ جبکہ گزشتہ روز صحت کی وفاقی وزیر مملکت سائرہ افضل تارڑ نے کہا تھا کہ اس بارے میں کوئی لائحہ عمل بنانے کے لئے عالمی ادارہ صحت سے دو ہفتے کی مہلت مانگی گئی ہے۔
عالمی ادارہ صحت نے پیر کو پاکستان پر نئی سفری پابندیا ں عائد کرنے کی سفارش کی تھی جس کے تحت بیرون ملک سفر کرنے والے پاکستانیوں یا طویل قیام کے بعد پاکستان سے واپس جانے والے ہر عمر کے مسافروں پر سفر سے کم از کم ایک مہینہ پہلے پولیو ویکسینیشن کروانا اور اس کا ثبوت پیش کرنا لازم ہوگا۔