پاکستان کے صوبے پنجاب کے شہر قصور سے رواں سال چار جنوری کو اغوا کے بعد زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کی جانے والی ساڑھے چھ سالہ بچی زینب کے مبینہ قاتل کو پولیس نے اپنی حراست میں لے لیا ہے۔
پنجاب پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ عمران طاہر نامی زیرِ حراست شخص کا ڈی این اے زینب کی لاش سے حاصل کیے جانے والے نمونوں سے مماثل پایا گیا ہے۔
پولیس افسر نے بتایا کہ زینب قتل کے شبہے میں ملزم عمران کو پہلے بھی حراست میں لیا گیا تھا لیکن پھر بچی کے رشتے داروں کے کہنے پر اسے چھوڑ دیا گیا تھا۔
تاہم پولیس افسر کے بقول اب ڈی این اے میچ ہوجانے کے بعد پولیس نے ملزم کو دوبارہ گرفتار کرلیا ہے۔
پولیس کے مطابق ملزم نے اپنے جرم کا اعتراف بھی کر لیا ہے جب کہ ڈی این اے کی ایک اور حتمی رپورٹ کا انتظار کیا جارہا ہے جس سے تصدیق ہوجانے کے بعد اس کی گرفتاری کا باضابطہ اعلان کردیا جائے گا۔
پولیس حکام کے مطابق ملزم مقتول بچی کا دور کا رشتے دار اور زینب کے گھر کے قریب ہی کورٹ روڈ کا رہائشی اور غیر شادی شدہ ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم کی عمر لگ بھگ 23 سال ہے اور اس نے اعتراف کیا ہے کہ وہ اس سے پہلے بھی کئی بچیوں کے ساتھ زیادتی کر چکا ہے۔
وزیرِ قانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے زینب قتل کیس پر ہونے والی اس پیش رفت پر وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ قومی امکان ہے کہ زینب کے قتل میں یہی شخص ملوث ہے۔
تاہم ان کے بقول ابھی ایک ڈی این اے ٹیسٹ کی حتمی رپورٹ آنا باقی ہے جس کے لیے فرانزک لیب نے کچھ وقت مانگا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس رپورٹ کے بعد 100 فی صد یقین کے ساتھ ملزم کا تعین ہو سکے گا۔
رانا ثنا اللہ نے بتایا کہ ملزم کو پاک پتن کے قریب سے گرفتار کیا گیا جو وہاں اپنے رشتہ داروں سے ملنے گیا تھا جب کہ اس نے اپنا حلیہ بھی تبدیل کرلیا تھا۔
ساڑھے چھ سالہ زینب کی لاش دس جنوری کو قصور ہی سے کچرے کے ڈھیر سے ملی تھی جس کے بعد قصور میں ہونے والے پرتشدد احتجاج میں پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں دو افراد بھی مارے گئے تھے۔