رسائی کے لنکس

پاکستان میں پائلٹس کے جعلی لائسنز، ہوا بازی کی عالمی تنظیم کو تشویش


فائل
فائل

ہوابازی سے متعلق بین الاقوامی تنظیم، انٹرنیشنل ایئرٹریول ایسویسی ایشن(ایاٹا) نے پاکستان میں پائلٹس کے جعلی لائسنز کے معاملے پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم ان رپورٹس کا جائزہ لے رہے ہیں جن میں پائلٹس کے جعلی لائسنس کا ذکر کیا گیا ہے اور ہوابازی کے ریگولیٹر ادارے کی طرف سے سیفٹی کو نظرانداز کیا گیا ہے۔

دوسری جانب، پاکستان کے وزیر ہوابازی غلام سرور خان کا کہنا ہے کہ مشکوک لائسنس والوں میں 141 پائلٹس پی آئی اے کے ہیں، 9 پائلٹس ایئر بلیو، 10 سرین ایئرلائن اور 17 شاہین ایئرلائن کے پائلٹس کے لائسنس مشکوک ہیں۔

وائس آف امریکہ کی جانب سے بھیجے گئے سوالنامہ پر ایاٹا کے ترجمان برائے جنوبی ایشیا، البرٹ ٹی جونگ نے کہا کہ ہم پاکستان میں جعلی لائسنس کے معاملے کا جائزہ لے رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ان رپورٹس پر شدید تشویش ہے جن میں لائسنسنگ کے معاملے پر شدید کوتاہی دیکھنے میں آرہی ہے، جس کی وجہ سے مسافروں کی حفاظت کو خطرے میں ڈالا گیا۔ اس بات کو پاکستان کے ایوی ایشن ریگولیٹر کی طرف سے نظر انداز کیا گیا ہے۔ ہم اس بارے میں مزید معلومات حاصل کررہے ہیں۔

28 پائلٹس کے جعلی لائسنس ثابت ہوگئے، غلام سرور خان

اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کے دوران وفاقی وزیر غلام سرور خان نے کہا ہے کہ 262 پائلٹس کے لائسنس مشکوک قرار دیئے گئے ہٰں، جن میں سے 28 کے جعلی ہونے کی تصدیق ہوگئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ تمام ایئرلائنز کو مشکوک لائسنز رکھنے والے پائلٹس کو جہاز اڑانے سے روک دیا گیا ہے۔

وزیر نے کہا کہ گزشتہ دس سال میں چار حادثات ہوئے، جن میں سے، ان کے بقول، تین کے ذمہ دار پائلٹ تھے؛ اور یہ کہ جعلی لائسنس والے پائلٹس کے خلاف فوجداری مقدمات چلائے جائیں گے۔

28پائلٹس کے لائسنس کی منسوخی کی سمری کابینہ کو بھیجی جائے گی، مسافروں کو ایسے لوگوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔

امتحانی نظام کے بارے میں سرورخان کا کہنا تھا کہ 753 پائلٹس پاکستان میں کام کررہے ہیں جن میں سے 262 افراد کے لائسنس مشکوک پائے گئے۔ جن افراد پر شک کیا گیا ہے ان میں 121 پائلٹس کا ایک پیپر مشکوک تھا۔ دو جعلی پیپر والے 39 پائلٹ ہیں جب کہ 34 کپتان ایسے ہیں جن کے آٹھوں پرچے مشکوک پائے گئےہیں۔

انہوں نے کہا کہ پائلٹس کی جگہ دیگر افراد کے امتحان دینے کا بھی انکشاف ہوا ہے۔

لائسنس کا آخر مسئلہ کیا ہے، لائسنس جعلی بھی ہوتا ہے؟

دنیا بھر میں رائج ایوی ایشن قواعد و ضوابط کے تحت کسی بھی جہاز کو اڑانے کے لیے پائلٹ کے اجازت نامہ کو لائسنس کہا جاتا ہے اور ہر ملک میں قائم ایوی ایشن اتھارٹی اس بات کی ذمہ دار ہوتی ہے کہ پائلٹ تمام امتحانات اور ضروری پرواز کے گھنٹے مکمل کرنے کے بعد اس لائسنس کا حقدار ہوتا ہے جس کی کچھ عرصے کے بعد تجدید ہوتی ہے۔

پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی جن پائلٹس کو لائسنس جاری کرتی ہے ان کا ایک امتحان لیا جاتا ہے اور ہر سال انہیں یہ امتحان پاس کرنا لازمی ہوتا ہے۔

وائس آف امریکا کے پاس دستیاب قواعد کے مطابق پائلٹس کا لائسنس ہر بارہ ماہ کے بعد رنیو کیا جاتا ہے۔ البتہ، چھ ماہ کے بعد ان کے میڈیکل سمیت دیگر ٹیسٹ لیے جاتے ہیں، لیکن لائسنس ایک سال تک کارآمد ہوتا ہے۔

پی آئی اے کے ساتھ طویل عرصہ تک پرواز کرنے والے بوئنگ 777 کے سابق پائلٹ اور پالپا کے سابق صدر، عامر ہاشمی کہتے ہیں کہ لائسنس کے بغیر کوئی پائلٹ جہاز نہیں اڑا سکتا اور کوئی پائلٹ جعلی لائسنس کے ساتھ بھی جہاز نہیں اڑا سکتا۔

پاکستان میں حالیہ دنوں میں جعلی لائسنس کی ٹرم کے حوالے سے عامر ہاشمی نے کہا کہ تمام پائلٹس کے لائسنس بالکل اصلی ہیں، جعلی کا استعمال کیا جانے والا لفظ صیح نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لائسنس سول ایوی ایشن اتھارٹی نے جاری کیے ہیں اور ان کا مکمل کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ ہوتا ہے۔ اگر کسی پائلٹ کا لائسنس منسوخ ہو یا معطل ہو تو اسے جہاز اڑانے کی اجازت نہیں مل سکتی۔ ایسے میں ایک شخص جعلی لائسنس کے ساتھ جہاز کیسے اڑا سکتا ہے۔

یہ لائسنس جعلی کیسے ہیں اس بارے میں پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ کہتے ہیں کہ بعض پائلٹس کے لائسنس پر امتحان دینے کی جو تاریخ لکھی ہے ان تاریخوں پر سرکاری چھٹی تھی یا بعض پائلٹس اپنے لاگ کے مطابق پرواز کررہے تھے یا بیرون ملک تھے، جب اس بارے میں بعض پائلٹس کی اطلاعات سامنے آئیں تو ہر پائلٹ کی انفرادی تحقیقات کی گئیں۔ اب تک نو پائلٹس نے اعتراف کرلیا۔

انہوں نے کہا کہ انکوائری جاری ہے لیکن ان پائلٹس کو جنہوں نے جعلی طریقہ سے لائسنس حاصل کیے انہیں دوبارہ جہاز اڑانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

پاکستانی پائلٹ کے لائسنس مشکوک کیوں؟

وزیر ہوابازی کے بیان کے بعد پاکستان کے تمام ایئرلائنز کے پائلٹس کو شک کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے کہ ان کے لائسنس جعلی ہیں یا انہوں نے پیسے دیکر یہ لائسنس حاصل کیے ہیں۔ لیکن یہ لائسنس آخر مشکوک ہوئے کیسے؟ کیا ہمارے پائلٹس امتحان پاس کرنے کے قابل نہیں ہیں؟ اس بارے میں عامر ہاشمی نے بتایا کہ اصل ایشو یہ ہے کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی میں کافی زیادہ کرپشن ہے، میں نے بذات خود اس بارے میں بات کی کہ ان لوگوں نے جو امتحان بنایا ہوا ہے اس کے لیے نہ تو کوئی باقاعدہ کتاب ہے اور نہ ہی کوئی کوالیفائیڈ استاد۔

انہوں نے کہا کہ میری اس بارے میں ماضی میں ایوی ایشن کے وزیر سے بات ہوئی جنہوں نے سول ایوی ایشن حکام کو بلایا۔ ان کو میں نے تجویز دی کہ امریکی فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن (ایف اے اے) کے نظام کی بنیاد پر لائسنس جاری کیے جائیں۔ ایف اے اے کے باقاعدہ استاد اور کتابیں موجود ہیں۔ لیکن اس پر اتھارٹی کا کہنا تھا کہ وہ بہت آسان ہے کوئی بھی پاس کرسکتا ہے۔ لہذا، وہ لوگ جو جہاز بناتے ہیں اور جو پورا ایوی ایشن کا نظام دیکھتے ہیں وہ بالکل فارغ ہیں اور اتھارٹی میں بیٹھے افسران بہت ذہین ہیں۔

عامر ہاشمی نے الزام عائد کیا کہ سی اے اے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ وہاں پیسے دیے جاتے ہیں اور لائسنس حاصل کیا جاتا ہے۔ چند ایک ویسے امتحان دیکر کلئیر کرتے ہیں لیکن زیادہ تر پیسے دیکر لائسنس لیتے ہیں اور اس کی وجہ مشکل امتحان ہے جس کے لیے کوئی کتاب نہیں۔

جعلی ڈگری کے بارے میں عامر ہاشمی کا کہنا تھا کہ ڈگری کا لائسنس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پائلٹ کے لیے بنیادی تعلیم صرف میٹرک ہے اگر کوئی جعلی سرٹیفکیٹ لاتا ہے تو ان کی جانچ پڑتال ایئرلائن کی ذمہ داری ہے، اگر ایئرلائن نے نہیں کیا تو پوری پائلٹ برادری کو کیوں بدنام کیا جارہا ہے؟

انہوں نے کہا کہ پائلٹ کا ہر چھ ماہ کے بعد ٹیسٹ ہوتا ہے، میڈیکل ہوتا ہے اور دیگر امتحانات کے بعد ان کا لائسنس رینیو ہوتا ہے۔ انہیں ہر چھ ماہ بعد اس کا سامنا کرنا ہوتا ہے، ایسے میں کوئی شخص بچ نہیں سکتا۔

ریگولیٹرکا کردار

اس تمام معاملہ میں سب اہم کردار ریگولیٹر یعنی سول ایوی ایشن اتھارٹی کا ہے جنہوں نے لائسنس جاری کرنے ہیں۔ وزیر ہوابازی غلام سرور خان کے مطابق سول ایوی ایشن اتھارٹی کے 5 افراد کو معطل کر دیا گیا ہے اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کے لیے ایف آئی اے کو مقدمات بھیجے جائیں گے۔ جعلی لائسنس ایشو کرنے میں آئی ٹی کے لوگ بھی شامل ہیں۔

لیکن کیا پانچ افراد کی معطلی سے یہ مسئلہ حل ہوجائے گا؟ پی آئی اے جہاں خسارے میں رہتا ہے وہاں گھنٹوں میں کروڑوں روپے کمانے والے اس ادارے میں کرپشن کے ذمہ داران اعلیٰ افسران کون ہیں اور انہیں گرفتار کیوں نہیں کیا جا رہا۔ اس بارے میں سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی بطور ریگولیٹر اپنا کام کرتے ہوئے بہت سختی سے کام لیتی ہے اور اس وجہ سے ایئرلائنز اور پائلٹس ان کے خلاف ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ امتحان سمیت لائسنس کے لیے تمام مراحل ہیں۔ لیکن پالپا سے منسلک بعض پائلٹس ادارے کو بلیک میل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

پالپا کے سابق صدر عامر ہاشمی نے کہا کہ بدقسمتی سے سول ایوی ایشن میں کوئی کوالیفائیڈ افسران نہیں ہیں۔ وہاں آنے والے اکثر افسران کو وقتی طور پر چارج دیا جاتا ہے۔ یہ دنیا کی شاید واحد سول ایوی ایشن اتھارٹی ہوگی جہاں معاملات کنٹرول کرنے والوں میں کوئی سویلین نہیں ہے۔ یہاں پر تمام افسران پاکستان فضائیہ کے سابق افسران ہیں۔ کئی سالوں سے کوشش یہ ہورہی ہے کہ پی آئی اے میں ایئرفورس کے پائلٹ آکر کام کریں۔ فضائیہ کے پائلٹس بہت پروفیشنل ہیں اور ان کے کام کرنے پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ بے شک ایئرفورس سے لے لیں۔ لیکن وہ باقاعدہ کورسز کرکے آئیں اپنے فلائنگ آورز مکمل کریں اور کام کریں ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔

انہوں نے کہا کہ انفرادی طور پر پائلٹس کو ذمہ دار ٹھہرانا درست نہیں ان کے ساتھ سول ایوی ایشن اتھارٹی میں موجود کرپشن کو بھی بے نقاب کیا جائے اور امتحانی نظام کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے۔

کیا پاکستان کی پروازوں پر بیرون ملک پابندی لگ سکتی ہے؟

اس صورتحال میں جب ایوی ایشن کے وزیر نے تیس فیصد پائلٹس پر شکوک ظاہر کردیے ہیں ایسی صورتحال میں پاکستان پر بیرون ملک پروازیں لانے پر پابندی لگ سکتی ہے۔ اس سوال پر حکومت کا کہنا ہے کہ ہم تمام صورتحال کو فیس کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس بارے میں انٹرنیشنل ایئرٹریول ایسویسی ایشن نے وائس آف امریکہ کے سوال پر صرف تحفظات کا اظہار کیا اور پابندی سے متعلق کوئی جواب نہیں دیا۔ تاہم، عامر ہاشمی کہتے ہیں کہ ماضی کے تناظر میں دیکھا جائے تو پی آئی اے پر یورپی یونین میں سیفٹی کے معیارات کی وجہ سے پابندی لگ چکی ہے۔ اگر پاکستان نے فوری طور پر ان تیس فیصد کی شناخت کرکے ان کی نشاندہی نہ کی اور انہیں سائیڈ لائن نہ کیا تو پاکستان پر یورپ سمیت بعض مقامات پر پابندی بھی لگ سکتی ہے۔

وزیرہوابازی کے بیان کے آفٹرشاکس

غلام سرور خان کے بیان کو پوری دنیا میں بہت تشویش کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے اور امریکی نیوز چینلز و اخبارات اور بالخصوص بھارتی میڈیا میں پاکستان میں ہوابازی کے نظام پر شدید تنقید کی گئی اور ان پر سوالیہ نشان کھڑے ہوگئے ہیں۔

اس بارے میں بیرون ملک ایک ایئرلائن میں کام کرنے والے پاکستانی پائلٹ نے نام ظاہر نہ کرنے کے شرط پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی وزیر کے بیان کے بعد انہیں اپنی ایئرلائن میں شک کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔ ان کا لائسنس پاکستان سے جاری ہوا تھا اور ان کے افسران ان کے لائسنس پر شک کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بہت سے لوگوں کی ملازمتیں صرف شک کی بنیاد پر بھی جا سکتی ہیں؛ جبکہ وہ پائلٹس جو بالکل درست لائسنس کے ساتھ کام کررہے ہیں معاشرتی سلوک اور لوگوں کی طرف سے جعلی لائسنس کے طعنے سن کر ذہنی دباؤ کا شکار ہوسکتے ہیں۔ ایسے میں پروازوں کے دوران انہیں ذینی دباؤ کی وجہ سے خطرات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

غیرملکی ایئرلائن کے پاکستانی پائلٹ نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں تحقیقات مکمل کرنے اور ایکشن لینے کے بعد معاملے کا انکشاف کیا جاتا ہے۔ لیکن وفاقی وزیر نے ایک دن میں اپنی نامکمل تحقیقات کو میڈیا میں لا کر پاکستان کی ایوی ایشن انڈسٹری اور سینکڑوں پائلٹس کو دنیا کی نظر میں مشکوک بنا دیا ہے۔

XS
SM
MD
LG