کچھ ہی روز قبل امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی اس بات کو دہرایا تھا کہ امریکی افواج شام سے واپس بلائی جائیں گی۔ اس ضمن میں، دفاعی حکام نے زور دے کر کہا ہے کہ حکمتِ عملی یا امریکی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
لیفٹیننٹ جنرل کینتھ مکینزی نے جمعرات کے روز پینٹاگان کے اخباری نمائندوں کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ’’دراصل کوئی بھی تبدیلی نہیں ہوئی‘‘۔
مکینزی نے دولت اسلامیہ کے دہشت گرد گروپ کا نام ’داعش‘ لیتے ہوئے، مزید کہا کہ ’’ہمیشہ ہی سے ہم یہ سوچتے آئے ہیں کہ جونہی ہم شام میں داعش کے خلاف کام مکمل کریں گے، ہم وہاں اپنی موجودگی کی سطح میں کمی لائیں گے‘‘۔
شام میں امریکہ کے تقریباً 2000 فوجی تعینات ہیں، جو داعش کا صفایا کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں، تاکہ گروہ کو نیست و نابود کردیں جو اپنے آپ کو خودساختہ خلافت کہتا ہے۔
لیکن، ٹرمپ نے اسی ہفتے دو بار اشارہ دیا کہ شام سے امریکی افواج کے انخلا کا وقت قریب ہے۔
منگل کے روز وائٹ ہاؤس میں بلقان ملکوں کے سربراہان کے ہمراہ اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، ٹرمپ نے کہا کہ ’’میں اپنی فوجیں گھر واپس لانا چاہتا ہوں‘‘۔ اُنھوں نے مزید کہا کہ وہ ’’بہت جلد‘‘ فیصلہ کرنے والے ہیں۔
لیکن بدھ کے روز جاری ہونے والے بیان میں، وائٹ ہاؤس نے صرف اتنا کہا کہ شام میں امریکی افواج کی موجودگی ’’جلد ختم ہونے والی ہے‘‘۔
صدر کے بیانات کے باوجود، اعلیٰ فوجی اہل کار بہت ہی محتاط ہیں۔ ’’ایسے میں جب داعش کے خلاف لڑائی ختم ہونے کو ہے، وہ اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ امریکی کردار جاری رہنا چاہیئے‘‘۔
امریکی سینٹرل کمان کے جنرل جوزف وٹیل، جو مشرق وسطیٰ میں امریکی افواج کے سربراہ ہیں، اُنھوں نے گذشتہ ہفتے واشنگٹن میں ایک سماعت کے دوران کہا تھا کہ ’’ابھی کچھ ایسے علاقے ہیں جہاں وہ (داعش) موجود ہے اور یہ کہ ہمیں اپنی کارروائیاں جاری رکھنی ہوں گی‘‘۔
وٹیل نے مزید کہا کہ ’’میرے خیال میں، مشکل مرحلہ ابھی باقی ہے۔ اس میں فوجی کردار کی ضرورت رہے گی، یقینی طور پر استحکام کے مرحلے کے دوران‘‘۔
پینٹاگان کی سربراہ خاتون ترجمان، دانا وائٹ نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ ’’میں نے انخلا سے متعلق لوگوں کی افواہیں سنی ہیں۔ مجھے پتا ہے کہ ایسا بہت جلد ہوگا، کیونکہ ہم داعش کو شکست دینے میں انتہائی کامیاب رہے ہیں، لیکن یہ معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا‘‘۔