پاکستان کی وزارت خارجہ نے پیر کی شام ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ پاکستان میں امریکہ کا کوئی فوجی یا فضائی اڈا موجود نہیں ہے اور نہ ہی ایسی کوئی تجویز زیر غور ہے۔
امریکہ اور پاکستان کی جانب سے بیانات کے بعد ذرائع ابلاغ پر ہونے والے مباحثوں، سوشل میڈیا اور عوام الناس میں یہ سوال تواتر سے پوچھا جا رہا ہے کہ آیا امریکہ کو افغانستان تک رسائی کے لیے پاکستان سے زمینی و فضائی راستے حاصل رہیں گے یا وہ پاکستان میں فوجی اڈے کی بھی اجازت دے رہا ہے؟
یہ کنیوژن اس بیان کے بعد پیدا ہوا جب امریکہ کے معاون وزیرِ دفاع برائے ہند و بحرالکاہل (انڈو پیسفک) ڈیوڈ ہیلوے نے بتایا کہ پاکستان، امریکہ کو افغانستان تک رسائی دینے کے لیے زمینی اور فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت برقرار رکھے گا۔ اس بیان پر ایک بار پھر بحث شروع ہو گئی کہ آیا پاکستان امریکہ کو فوجی اڈے فراہم کر رہا ہے، اگرچہ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی چند روز قبل ایسی خبروں کی تردید کر چکے ہیں۔
اس صورتحال میں پاکستان کی وزارت خارجہ نے پیر کی شام ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ پاکستان میں امریکہ کا کوئی فوجی یا فضائی اڈا موجود نہیں ہے، نہ ہی ایسی کوئی تجویز زیر غور ہے۔
پیر کی شام جاری ہونے والے ایک سرکاری بیان میں، پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ ''اس ضمن میں کسی طرح کی قیاس آرائی بے بنیاد اور غیر ذمہ دارانہ ہے''، اور یہ کہ ''اس سے احتراز کیا جانا چاہیے''۔
پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے مزید کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان سنہ 2001ء سے ایئر لائنز آف کمیونیکیشن اور گراؤنڈ لائنز آف کمیونیکیشن سے متعلق تعاون کے ضوابط کا ایک فریم ورک موجود ہے اور اس ضمن میں کوئی نیا سمجھوتہ عمل میں نہیں آیا ہے۔
وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی چند روز قبل واضح کیا تھا کہ پاکستان امریکہ کو فوجی اڈے دینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔
امریکی معاون وزیرِ دفاع نے گزشتہ ہفتے امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ پاکستان نے افغان امن عمل میں کلیدی کردار ادا کیا ہے اور وہ مستقبل میں بھی اس ضمن میں امریکہ کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ خطے میں اپنی موجودگی چاہتا ہے اور افغانستان کی صورتِ حال کے پیشِ نظر ممکن ہے کہ پاکستان غیر اعلانیہ طور پر امریکہ کو یہ سہولت دے۔
ڈیوڈ ہیلوے کا کہنا تھا کہ پاکستان نے افغانستان میں اہم کردار ادا کیا ہے، اس نے افغان امن عمل کی حمایت کی، جب کہ افغانستان میں ہماری فوجی موجودگی برقرار رکھنے کے لیے اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت اور زمینی رسائی دی۔
اس بارے میں وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے 11 مئی کو دفترِ خارجہ میں ہونے والی بریفنگ میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد افغانستان تک رسائی کے لیے امریکہ کو فوجی اڈے دینے کی تردید کی تھی۔
ا'مریکہ افغانستان سے انخلا کے باوجود خطے میں موجودگی چاہتا ہے'
دفاعی تجزیہ کار لیفٹننٹ جنرل (ر) طلعت مسعود کہتے ہیں کہ امریکہ، خطے میں افغانستان سمیت دیگر ممالک پر نظر رکھنے کے لیے یہاں موجودگی چاہتا ہے اور اس مقصد کے لیے پاکستان کی طرف سے سہولت فراہم کی جا سکتی ہے کیوں کہ ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔
جنرل طلعت مسعود کا کہنا تھا کہ افغانستان کی صورتِ حال پر فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اس میں کب تک بہتری آئے گی اور امریکہ کسی صورت نہیں چاہے گا کہ اس کے افغانستان سے نکلنے کے بعد دوبارہ یہاں دہشت گردی ہو۔ لہذا، وہ اس مقصد کے لیے خطے میں اپنی موجودگی چاہے گا۔
جنرل طلعت مسعود کے بقول ایران، چین اور پاکستان پر نظر رکھنے کے لیے بھی امریکہ کو یہاں موجود رہنا ہو گا۔ لہذا، عین ممکن ہے کہ پاکستان میں اس کے طیاروں کی ری فیولنگ اور دیگر سہولیات فراہم کی جائیں۔ اس کے ساتھ امریکہ کو پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرنے کی بھی اجازت دی جا سکتی ہے۔
اس سوال پر کہ اس معاملے پر پاکستان کو اندر سے مزاحمت کا سامنا ہو گا؟ جنرل طلعت مسعود نے کہا کہ اس پر ممکن ہے کہ کچھ بیانات سامنے آئیں۔ لیکن، ایسی دفاعی پالیسیاں فوج تشکیل دیتی ہے۔ لہذٰا، اس پر پاکستان کے اندر زیادہ ردِعمل کا بھی امکان نہیں ہے۔
'فوجی اڈے حوالے کرنا اور فضائی حدود کا استعمال الگ الگ معاملات ہیں'
دفاعی تجزیہ کار لیفٹننٹ جنرل امجد شعیب کہتے ہیں کہ بیسز کا استعمال اور فضائی یا زمینی راستہ استعمال کرنے کی اجازت دینا دو الگ الگ چیزیں ہیں۔
اُں کے بقول، پاکستان نے ماضی میں ایئر بیسز امریکہ کو استعمال کے لیے دیں۔ لیکن شمسی ایئر بیس خالی ہونے کے بعد کسی بیس پر کوئی امریکی موجودگی نہیں ہے۔
دوسرا معاملہ زمینی یا فضائی راستے کا ہے تو پاکستان کی طرف سے دی گئی یہ اجازت پہلے سے موجود ہے۔ نیٹو سپلائیز کے لیے پاکستانی سرزمین استعمال ہوئی اور بحیرۂ عرب میں موجود امریکی بیڑوں کے ذریعے امریکی طیارے پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرتے ہوئے افغانستان میں حملے کرتے رہے ہیں۔
امجد شعیب کا کہنا تھا کہ امریکہ کو بیسز درکار ہیں۔ لیکن، پاکستان کو اس بارے میں واضح اعلان کرنا چاہیے کہ وہ امریکہ کو بیسز نہیں دے گا۔ کیوں کہ وزیرِ اعظم عمران خان پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ ہم کسی کی جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے۔
اُن کے بقول، نیٹو سپلائیز کا معاملہ کچھ اور ہے۔ لیکن، ایسے اڈے فراہم کرنا کہ جہاں سے باقاعدہ حملے ہوں اس کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہم انہیں بیسز دیتے ہیں تو اس سے ہمارا چین، پاکستان اقتصادی راہداری سی پیک پراجیکٹ غیر محفوظ ہو گا اور امریکہ بھارت اتحاد کی وجہ سے پاکستان کے لیے خطرات بڑھیں گے۔ لہذا، بہتر یہ ہے کہ پاکستان کسی صورت اپنی بیسز امریکہ کو فراہم نہ کرے۔
امجد شعیب کا کہنا ہے کہ گو کہ وزیرِ خارجہ قریشی اس حوالے سے پالیسی واضح کر چکے ہیں۔ تاہم، اگر امریکہ دباؤ ڈالتا ہے تو بھی پاکستان کو دو ٹوک انداز میں اسے مسترد کرنا چاہیے۔
معید یوسف کی اپنے امریکی ہم منصب سے ملاقات
دریں اثنا، پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے اتوار کو جنیوا میں امریکی ہم منصب جیک سلیوان سے ملاقات کی ہے۔
وائٹ ہاؤس کی جانب سے پیر کو جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک کے قومی سلامتی کے مشیروں نے دو طرفہ تعلقات، خطے کی صورتِ حال اور باہمی تعاون کو فروغ دینے سمیت اُمور پر تبادلۂ خیال کیا۔
بیان کے مطابق، دونوں رہنماؤں نے بات چیت کا عمل جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔