فلسطینی مزاحمتی تنظیم 'حماس' نے صدر محمود عباس پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ فلسطینی اتھارٹی اور 'حماس' کے درمیان ہونے والی مفاہمت کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
غزہ پر حکمران 'حماس' کی قیادت فلسطینی صدر کے ہفتے اور اتوار کو دیے جانےو الے بیانات پر سخت برہم ہیں جن میں محمود عباس نے دھمکی دی تھی کہ اگر 'حماس' نے غزہ پر اپنا کنٹرول ختم نہ کیا تو وہ قومی حکومت کے قیام کے معاہدے سے دستبردار ہوجائیں گے۔
فلسطینی صدر کے بیانات پر پیر کو اپنے باضابطہ ردِ عمل میں 'حماس' کے ترجمان فوزی برہوم نے محمود عباس پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ "امریکیوں اور اسرائیلیوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔"
'حماس' ترجمان نے کہا ہے کہ صدر عباس اپنی تنظیم 'الفتح' اور 'حماس' کے درمیان طے پانے والی مفاہمت کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
خیال رہے کہ 'حماس' نے 2007ء میں صدر عباس کی سربراہی میں قائم 'فلسطینی اتھارٹی' کی حکومت کے حامی افسران اور سکیورٹی اہلکاروں کو غیرموثر کرکے غزہ کا اقتدار سنبھال لیا تھا جس کے بعد 'فلسطینی اتھارٹی' کی حکومت صرف مغربی کنارے تک محدود ہو کر رہ گئی تھی۔
آٹھ برس تک جاری رہنے والی باہمی چپقلش اور اختلافات کے بعد 'حماس' اور صدر عباس کی تنظیم 'الفتح' نے رواں سال اپریل میں ایک مفاہمتی سمجھوتے پر دستخط کیے تھے جس کے بعد دونوں جماعتوں نے تمام فلسطینی علاقوں پر مشترکہ قومی حکومت تشکیل دینے پر اتفاق کیا تھا۔
مذکورہ حکومت نے دو جون کو باقاعدہ طور پر اقتدار سنبھالا تھا جس سے قبل غزہ پر برسرِ اقتدار 'حماس' کی حکومت اپنے اختیارات سے دستبردار ہوگئی تھی۔
لیکن اپنے تازہ بیانات میں صدر عباس نے الزام عائد کیا ہے کہ 'حماس' نے غزہ میں اپنی متوازی حکومت قائم کر رکھی ہے اور وہ نئی قومی حکومت کو اختیارات منتقل نہیں کر رہی۔
دونوں فلسطینی جماعتوں کے درمیان اختلافات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب 'حماس' اور اسرائیل کے درمیان 50 روز تک جاری رہنے والی لڑائی کے بعد جنگ بندی کو بمشکل دو ہفتے ہی گزرے ہیں۔
اس 50 روزہ جنگ کے دوران 'حماس' اور 'فلسطینی اتھارٹی' کے درمیان قریبی تعاون دیکھنے میں آیا تھا اور دونوں جماعتوں نے مشترکہ طور پر مصری اور اسرائیلی حکام کے ساتھ جنگ بندی کے معاملے پر مذاکرات کیے تھے۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دونوں جماعتوں کے درمیان حالیہ تنازع کی ایک وجہ رواں سال کے اختتام پر ہونے والے عام انتخابات بھی ہوسکتے ہیں جن کے انعقاد پر دونوں جماعتوں نے اپریل میں طے پانے والے معاہدے کے تحت اتفاق کیا تھا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ 50 روز تک لڑائی جاری رکھنے اور 60 سے زیادہ اسرائیلی فوجیوں کو ہلاک کرنے کے نتیجے میں فلسطینی عوام میں 'حماس' کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے جس سے 'الفتح' کے رہنما خائف ہیں۔
فلسطین میں عوامی رائے عامہ کے ایک حالیہ جائزے کے مطابق اگر فوراً صدارتی انتخاب کرایا جائے تو 'حماس' سے تعلق رکھنے والے سابق وزیرِاعظم اسمعیل ہانیہ 61 فی صد ووٹ حاصل کرکے کامیاب قرار پائیں گے۔
جائزے کے مطابق ہانیہ کے برعکس صدر محمود عباس کو صرف 32 فی صد رائے دہندگان کی حمایت حاصل ہے۔