پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے قریبی علاقوں میں بسنے والوں کو صحت اور تعلیم کی بنیادی سہولتوں کی کمی کا سامنا ہے جس کی وجہ سے یہاں کے لوگ شدید مشکلات کا شکار ہیں۔
اکثر دیہی علاقوں میں بنیادی صحت کے مراکز تو موجود ہیں لیکن ان میں ڈاکٹروں اور طبی عملے کی تعداد نہ ہونے کے برابر اور ضروری ادویات کی قلت کے باعث مقامی آبادی کو اپنے علاج کے لیے دور دراز شہری علاقوں کو رخ کرنا پڑتا ہے۔
صحت کے علاوہ یہاں تعلیمی شعبے کی صورتحال بھی غیر تسلی بخش ہے جس کی وجہ سے آسودہ حال لوگ تو اپنے بچوں کو معیاری تعلیم دلوانے کے لیے شہر بھیج دیتے ہیں لیکن ایسا کرنا ہر کسی کے بس میں نہیں۔
صحت اور تعلیم کی سہولتوں سے محروم سرحدی علاقوں کے لوگ اپنے مسائل کے حل کے لیے آئے روز سڑکوں پر سراپا احتجاج نظر آتے ہیں۔ کنٹرول لائن سے صرف چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع قصبہ چناری میں کئی دہائیوں سے قائم واحد مرکز صحت میں صرف ایک ڈاکٹر ہے لیکن مریضوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔
چناری قصبہ کے لوگوں نے بنیادی مرکز صحت کی حالت زار پر حالیہ دنوں میں احتجاج کرتے ہوئے مظفرآباد، سری نگر روڈ کو بند کر کے منقسم کشمیر کے درمیان چلنے والی بس سروس کو بھی روکنے کی کوشش کی۔
ہڑتال میں شامل چناری کے رہاشی محمد خان نے وائس آف امریکہ کو بتایاکہ یہاں مریضوں کو لمبی قطار کو ایک ہی ڈاکٹر سے مشورے کے لیے انتظار کرنا پڑتا ہے اور "اگر وہ کوئی دوائی لکھ کر دیتا ہے تو وہ بھی یہاں نہیں ملتی تو پھر ہم کہاں جائیں۔"
تاہم پاکستانی کشمیر کے محکمہ صحت کے اعلیٰ عہدیدار ڈاکٹرسردار محمود احمد کہتے ہیں کہ حکومت اپنے وسائل کے اندر رہتے ہوئے وسائل حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور کنٹرول لائن کے قریب واقع چند علاقوں میں مراکز صحت میں سہولتیں مہیا کرنے کا کام شروع کر دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ سرحدی علاقوں میں قائم مراکز صحت کے لیے ادویات کا کوٹہ بھی دگنا کیا جا رہا ہے تاکہ یہاں کے لوگوں کو ادویات بھی باآسانی میسر آسکیں۔