انسانی حقوق کی ایک بین الاقوامی تنظیم ہیومین رائٹس واچ نے کہا ہے کہ پاکستانی پولیس سے مبینہ طور پر’جعلی پولیس مقابلوں‘ میں ہر سال سینکڑوں افراد مارے جاتے ہیں۔
پیر کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ہیومین رائٹس واچ یعنی ’ایچ آر ڈبلیو‘ نے پاکستانی حکومت پر زور دیا کہ وہ محکمہ پولیس کی تشکیل نو کرے۔
جب کہ یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ سال 2015 میں پاکستان میں پولیس مقابلوں میں لگ بھگ دو ہزار مشتبہ افراد مارے گئے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان میں مختلف ادوار میں حکومتیں پولیس فورس کو بہتر بنانے اور اُس محکمے میں احتساب کا عمل متعارف کروانے میں کامیاب نہیں ہوئی ہیں۔
’ایچ آر ڈبلیو‘ کی رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ پولیس فورس سیاسی جماعتوں اور بااثر شخصیات کے دباؤ میں رہتی ہے۔
اس رپورٹ میں مختلف عہدوں پر فائر 30 پولیس افسران جب کہ 50 متاثرہ افراد کے انٹرویو شامل کیے گئے۔ تنظیم کے مطابق اُس کی تحقیقات کا محور پاکستان کے تین صوبے، سندھ، پنجاب اور بلوچستان تھے۔
زیر حراست ملزمان کے علاوہ مشتبہ افراد کے ساتھ پولیس مقابلوں کی خبریں تواتر کے ساتھ پاکستانی ذرائع ابلاغ میں آتی رہی ہیں۔
پاکستان میں محکمہ پولیس یا اس کے سربراہان کی طرف سے ہیومین رائٹس واچ کی رپورٹ پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا، تاہم وفاق میں برسراقتدار جماعت مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی طلال چوہدری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ آزاد عدلیہ اور میڈیا کے ہوتے ہوئے فرضی یا جعلی پولیس مقابلے میں کسی کو ہلاک کرنا ممکن نہیں۔
’’آزاد میڈیا، آزاد عدلیہ کے ہوتے ہوئے ایسا پولیس مقابلہ ممکن نہیں ۔۔۔ ایسے واقعات کی صورت میں ایک ڈسٹرکٹ سیشن جج کی سطح پر کمیشن بنتا ہے۔۔۔ تو آزاد عدلیہ، میڈیا کے ہوتے ہوئے عموماً یہ الزام تو ہوتا ہے لیکن اصل حقیقت میں اگر اب جوڈیشل رپورٹیں دیکھیں تو اُن میں زیادہ تر اس طرح کے مقابلے ہیں یا جس میں لوگ ہلاک ہوتے ہیں وہ بالکل ٹھیک ہوئے۔‘‘
طلال چوہدری کہتے ہیں کہ پاکستان میں پولیس کو صرف جرائم پیشہ عناصر ہی نہیں بلکہ دہشت گردوں کا بھی سامنا ہے۔
’’آپ کو پتہ ہے کہ ایسے لوگوں سے ہمارا سامنا ہے جو بھرپور طریقے سے کارروائی کرتے ہیں۔۔۔ وہ کسی سزا، کسی چیز حتیٰ کہ اپنی جان کا خیال نہیں کرتے اور اسی بنا پر ہماری فورسز کو فوری ردعمل کرنا پڑتا ہے۔‘‘
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے ہی پاکستان کے وفاقی محتسب کے سیکرٹریٹ سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ منظر عام پر آئی تھی جس میں یہ کہا گیا تھا کہ محکمہ پولیس کے تقریباً 90 فیصد اہلکار مطلوبہ معیار کے مطابق پڑھے لکھے نہیں ہیں جب کہ وہ مکمل طور پر با اختیار بھی نہیں ہیں۔
پاکستان کی عدالت عظمٰی میں زیر سماعت کئی مقدمات میں بھی پولیس کی استعداد کار بڑھانے سے متعلق معاملات کو اجاگر کیا جاتا رہا ہے۔