پاکستان نے کہا ہے کہ افغانستان نے اُن دو پاکستانی سفارتی اہلکاروں کو رہا کر دیا ہے جنہیں کابل میں حراست میں لیا گیا تھا۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے جمعرات کو معمول کی ہفتہ وار بریفنگ کے دوران کہا کہ یہ اہلکار کابل میں واقع پاکستان کے سفارت خانے میں واپس آ گئے ہیں۔
تاہم پاکستان کے طرف سے ان سفارتی اہلکاروں کی نا تو شناخت ظاہر کی گئی اور نا ہی یہ بتایا کہ انہیں کب حراست میں لیا گیا اور کب رہا کیا گیا ۔
اسلام آباد نے گزشتہ روز اس واقعہ پر احتجاج کرتے ہوئے اسے ویانہ کنوینشن کی خلاف ورزی قرار دیا۔
پاکستانی وزارت خارجہ کی طرف سے بدھ کو دیر گئے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق اسلام آباد میں افغان سفارت خانے کے نائب ناظم الامور کو دفتر خارجہ طلب کر کے اس واقعہ پر سخت احتجاج کیا جس میں پاکستانی سفارت خانہ کے دو اہلکاروں کو اطلاعات کے مطابق افغان سکیورٹی ایجنیسوں نے حراست میں لے لیا تھا۔
بیان میں کابل حکومت پر زور دیا گیا کہ وہ سفارتی عملے اور سفارت خانے کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے فوری اقدم اٹھائیں اور اس کے ساتھ اس بات کو بھی یقینی بنائیں کہ اس طرح کا کوئی واقعہ دوبارہ نا ہو۔
افغان حکومت کی طرف سے تاحال اس حوالے سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
یہ واقعہ ایک ایسے وقت رونما ہوا ہے جب حالیہ مہینوں اسلام آباد اور کابل کے درمیان تعلقات انتہائی کشدہ ہیں۔
افغان امور کے ماہر اور سابق پاکستانی سفارت کار رستم شاہ مہمند نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ حالیہ واقعہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدہ تعلقات کا مظہر ہے۔
"یہ خراب تعلقات کی علامت ہے یہ تشویشناک واقعہ ہے ۔۔۔ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کا کشیدہ ہونا اور (باہمی) اعتماد کا فقدان ہے۔"
واضح رہے کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میں اس وقت اضافہ ہوا تھا جب مئی کے پہلے ہفتے چمن میں پاک افغان سرحد پر دونوں ملکوں کی سرحدی فورسز کے درمیان فائرنگ و گولہ باری کا مہلک تبادلہ ہوا جس کی وجہ سے پہلے سے تناؤ کا شکار تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے۔
اگرچہ گزشتہ چند ہفتوں کے دوارن پاکستان کے کئی اعلیٰ سطحی سرکاری وفود افغانستان کا دورہ کر چکے ہیں تاہم اسلام آباد اور کابل کے تعلقات بدستور کشیدہ ہیں۔ رستم شاہ نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان ایسے رابطے تعلقات کو موثر بنانے کا ایک ذریعہ ہو سکتے ہیں تاہم ان کے بقول جب تک دنوں ملکوں کی سوچ میں تبدیلی نہیں آئے گی اس وقت تک دونوں ملکوں کے باہمی معاملات حل نہیں ہوں گے۔