پاکستان میں تعلیم سے متعلق نئی رپورٹ کے مطابق ملک میں اب بھی دو کروڑ 20 لاکھ سے زائد بچے ایسے ہیں جو تعلیمی اداروں سے باہر ہیں۔
اسکولوں سے باہر ان بچوں کی عمریں پانچ سے سولہ سال کے درمیان ہیں۔
’پاکستان ایجوکیشن اسٹیٹسٹک 2015 – 16‘ نامی اس رپورٹ کے مطابق اسکولوں سے باہر بچوں کی تعداد دو کروڑ چالیس لاکھ تھی جس میں اب کمی آئی ہے۔
حکام کے مطابق 2012ء میں تقریباً دو کروڑ ساٹھ لاکھ بچے اسکولوں سے باہر تھے اور 2015ء میں یہ تعداد کم ہو کر دو کروڑ چالیس لاکھ ہو گئی تھی۔
اگرچہ حکومت کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ اسکولوں سے باہر طالب علموں کی تعداد میں سالانہ تین فیصد تک کمی آئی ہے اور پرائمری تعلیم میں داخلوں کی شرح میں بھی بہتری آئی ہے۔
لیکن نئی رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں پرائمری سطح کے اسکولوں میں سے 21 فیصد اسکول ایسے ہیں جن میں صرف ایک استاد تعینات ہے جب کہ 14 فیصد اسکول محض ایک کمرے کی عمارت پر مشتمل ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ صوبہ بلوچستان اور افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں اسکول جانے کی عمر کے سب سے زیادہ بچے تعلیمی اداروں سے باہر ہیں۔
پاکستان کے آئین کے مطابق وفاقی اور صوبائی حکومتیں پانچ سے 16 سال کی عمر کے بچوں کو مفت تعلیم فراہم کرنے کی پابند ہیں، لیکن تاحال اس سلسلے میں کوئی نمایاں پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی ہے اور نہ ہی بجٹ میں تعلیم کے لیے مختص رقم میں قابل ذکر اضافہ کیا گیا ہے۔
ماہر تعلیم اور تجزیہ کار اے ایچ نیئر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ تعلیم کی حالت زار اُسی صورت بہتر ہو سکتی ہے جب تعلیم کے شعبے کے لیے مختص بجٹ میں اضافہ کیا جائے۔
محکمہ تعلیم سے وابستہ حکام کا کہنا ہے کہ اسکول سے باہر بچوں کو تعلیم کی فراہمی کا بندوبست کرنا ملک کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔
وزیر مملکت برائے تعلیم بلیغ الرحمٰن کہہ چکے ہیں نا صرف ملک میں بچوں کی تعلیم کی طرف توجہ دی جا رہی ہے بلکہ اسکولوں میں دیگر سہولتوں کی فراہمی کو بھی یقینی بنایا جا رہا ہے۔
تعلیم کے شعبے سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ ان ملکوں نے تعلیم کے شعبے میں ترقی کی ہے جنہوں نے کل قومی پیداوار کا چار فیصد یا زائد تعلیم کے لیے مختص کیا ہے اور پاکستان کو تعلیم کے شعبے میں اہداف کے حصول کے لیے تعلیمی بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کرنا ہو گا۔