پرویز بھٹی ایک مصور ہیں اور کراچی میں رہتے ہیں۔ وہ امریکی صدر براک اوباما کو اپنے ہاتھوں سے ایک ’انمول‘تحفہ دینا چاہتے ہیں۔۔اور یہ ان کا سب سے بڑا ’سپنا‘ ہے۔
’وائس آف امریکہ‘ کو اس تحفے سے متعلق تفصیلات بتاتے ہوئے، پرویز بھٹی کہتے ہیں: ’اتنی بڑی شخصیت کو بھلا میں کیا تحفہ دے سکتا ہوں۔۔بس دس فٹ لمبی اور پانچ فٹ چوڑی ایک تصویر ہے جس میں صدر براک اوباما، مشیل اوباما اور ان کی دونوں صاحبزادیاں مالیہ اور ساشہ مسکراتی ہوئی نظرآرہی ہیں۔ مجھے معلوم ہے صدر اوباما کے مجھ جیسے لاتعداد پرستار ہیں۔ لیکن، جتنی چاہت اور لگن سے میں نے یہ تصویر بنائی ہے ۔۔وہ جذبہ، وہ چاہت انہیں کہیں اور نہ ملے۔‘
وہ اپنے گفٹ کے حوالے سے یہ بھی بتاتے ہیں کہ ’اسے تیار کرنے میں مجھے تین ماہ سے زیادہ کا وقت لگا۔ کیوں کہ جب آپ کو کوئی چیز دل سے تیار کریں تو اسے ہر پہلو سے مکمل بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ جلدی جلدی میں کوئی خامی رہ جائے اس لئے جب بھی کام کیا، فرصت سے کیا۔ رہا سوال خرچ کا تو تحفے پر صرف ہونے والی رقم نہیں۔۔۔ شخصیت دیکھی جاتی ہے۔ میرے لئے یہ’انمول‘ ہے۔‘
جب پرویز بھٹی سے یہ پوچھا گیا کہ انہیں صدر اوباما کی شخصیت میں کیا خاصیت نظر آتی ہے تو ان کا تھا ’سادگی۔۔ میں لیاری میں رہتا ہوں اور مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب اوباما پہلی مرتبہ صدر بنے تو لیاری میں باقاعدہ جشن منایا گیا۔ مجھ سمیت لیاری کے زیادہ تر لوگوں کو خوش خیالی ہے کہ صدر پہلی نظر میں ان جیسے ہی نظر آتے ہیں۔۔۔ اس لئے یہاں کے بیشتر افراد کو ایسا لگتا ہے کہ صدر انہی کے درمیان سے اٹھ کر اتنے بڑے عہدے پر پہنچے ہوں۔ ان سے یہی انسیت عرصے تک مجھے ان کا فیملی پورٹریٹ بنانے پر اکساتی رہی جو بلاخر اب پایہ تکمیل کو پہنچا۔‘
صدر اوباما کے علاوہ پاکستان کی بہت سی اہم شخصیات بھی پرویز بھٹی کے فن کا مشق رہی ہیں جیسے قائداعظم محمد علی جناح، علامہ اقبال، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف۔ وہ اپنی ایک اور خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں ’میں وزیراعظم نواز شریف کا ریکارڈ سائز پورٹریٹ بنانا چاہتا ہوں۔ اتنا بڑا کہ اب تک کسی نے اس بارے میں سوچا بھی نہ ہو۔دیکھئے یہ خواہش کب پوری ہوتی ہے۔‘
امریکی صدر سے ملاقات کا موقع ملا تو کیسا محسوس کریں گے؟ اس سوال پر ان کا کہنا تھا۔ ’بہت اچھا لگے گا۔ میں چاہتا ہوں بس ان سے ایک ملاقات ہو، میں اپنے ہاتھوں سے انہیں یہ تحفہ دوں اور واپس چلا آوٴں‘۔
امریکہ میں مستقبل رہائش سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا ’ایسا کبھی میں نے سوچا بھی نہیں۔۔نہ ہی کوئی ارادہ ہے۔ عمر گزر گئی یہیں، کاروبار یہیں ہے۔ بیوی، بچے اور باقی رشتے دار بھی یہیں ہیں۔ اب تو یہی دنیا ہے، نئی دنیا نہیں بسا سکتا۔‘
پرویز بھٹی نے مصوری کا فن اپنے دونوں بیٹوں راہی اور جسارت کو منتقل کردیا ہے۔ حالانکہ، ایک دور میں وہ ایک بیٹے کو ڈاکٹر اور دوسرے کو پائلٹ بنانا چاہتے تھے۔ ’میں نے اپنے استاد سردار صاحب سے سنہ 1971 میں یہ فن سیکھا تھا۔ میرے والد مصوری کے خلاف تھے وہ کہتے تھے یہ فن سیکھا تو ذہن کمزور ہوجائے گا۔ پھر کسی اور کام کے نہیں رہوگے۔ وہ مجھے نامی گرامی پہلوان بنانا چاہتے تھے مگر مجھے ڈرائنگ کا شوق تھا اور بلآخر یہی شوق میرا ذریعہ معاش بن گیا اور آج تک بنا ہوا ہے۔‘
بقول اُن کے، ’پہلے پہل میں فلمی پوسٹر زاور بینرزبنایا کرتا تھا ۔اس وقت سستائی کا بھی دور تھا اور فلمی دنیا بھی عروج پر تھی اس لئے اچھا کام چلتا تھا مگر اب پوسٹرز کی جگہ پینا فلیکس اور دیگر جدید ٹیکنالوجیز نے لے لی اس لئے کام کم ہوگیا۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر آرٹسٹوں نے مصوری چھوڑ دی اور دوسرے پیشے اپنا لئے۔ میں نے کوئی اور کام سیکھا ہی نہیں اس لئے اب تک اس سے جڑا ہوا ہوں۔ جسارت کیلی گرافی یعنی فائن آرٹس کا ماہر ہے جبکہ راہی کے کام میں آپ کو میرے کام کی جھلک نظرآئے گی۔‘