اسلام آباد —
سردیوں کے موسم میں خاندان کے بچے اپنے بڑے بزرگوں خصوصاً نانی یا دادی اماں کے ساتھ ایک بڑے سے گرم لحاف میں بیٹھ کر کہانیاں سنا کرتے تھے اور دیگر افراد بھی ایسے ہی بیٹھ کر خشک میوہ جات یا مونگ پھلی پھانکتے ہوئے اپنے روز مرہ کے مسائل پر تبادلہ خیال کرتے تھے۔
سرد رتیں آنے سے پہلے ہی گلیوں میں روئی دھنکنے والے کی صدا بلند ہوتی تھی اور گھر کی خواتین جاڑے سے پہلے لحافوں کی روئی دھنکوا لیا کرتی تھیں کہ نرم روئی سردی روکنے میں بہت کارگر ثابت ہوتی تھی۔
وقت بدلا اور جہاں بہت سی مشینوں نے انسان کی جگہ لے لی وہیں روئی دھنکنے والا یہ کردار اور سردیوں سے جڑی یہ روایت بھی بزرگوں کی ان باتوں اور یادوں کی طرح گھر کے کسی ٹرنک یا پیٹی میں محفوظ ہو گئیں۔
وفاقی دارالحکومت میں گزشتہ دو دہائیوں سے زائد عرصے خان بہادر روئی کی دھنائی اور لحاف تیار کرنے کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سردیاں آتی ہیں تو لوگوں کو ان کی یاد بھی آتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پہلے ہاتھ سے روئی کی دھنائی ہوتی تھی کیونکہ طریقہ ہی صرف یہی تھا۔
’’اس میں ٹائم زیادہ لگتا تھا، سارے دن میں پانچ، دس رضائیاں بنتی تھیں دھنائی کر کے۔ اب مشینی دور ہے ہم 100 سے لے کر 200 تک رضائی تیار کرتے ہیں، مشین سے بھرائی کرتے ہیں، پھر چھڑی سے اسے (لحاف) ہموار کرتے ہیں اور سلائی کر کے دیتے ہیں۔‘‘
خان بہادر کے ہاں کام کرنے والوں میں دھنائی سے لے کر لحاف کو حتمی شکل دینے والوں تک درجن بھر لوگ کام کرتے ہیں جو تمام کے تمام سردیوں کی صبح سے شام ڈھلنے تک ایک مصروف دن گزارتے ہیں۔
بازار میں دستیاب تیار رضائیوں (لحاف) سے دھنکی روئی والے لحاف کا موازنہ کرتے ہوئے خان بہادر کا کہنا تھا ’’گرمائش تو سب میں ہوتی ہے مگر پائیداری زیادہ دیسی روئی والی رضائی کی ہوتی ہے، یہ زیادہ عرصہ چلتی ہے۔‘‘
ان کے بقول وہ پولیسٹر سمیت روئی کی مختلف معیار کے لحاف تیار کرتے ہیں اور ان کے ہاں ایک ہزار روپے سے لے کر تین ہزار تک کی رضائیاں بنائی جاتی ہیں۔
’’دیسی روئی کھیتوں میں اگنے والی کپاس کی اچھی کوالٹی سے حاصل ہوتی ہے۔ پھر ملوں میں استعمال ہونے کے بعد جو ذرا کم معیار کی روئی بچتی ہے وہ بھی لحافوں میں استعمال ہوتی ہے۔ ایک بہترین رضائی میں عموماً پانچ کلو روئی استعمال ہوتی ہے۔‘‘
ملک میں توانائی کے بحران سے جہاں دیگر شعبے متاثر ہوئے ہیں وہیں موسم سرما میں مصروف رہنے والے یہ کاریگر بھی متفکر نظر آئے۔
خان بہادر کہتے ہیں کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ سے ان کا کام خاصا متاثر ہوتا ہے۔ ان کے بقول وہ کام تو اب بھی کرلیتے ہیں مگر اس صورتحال میں کارکردگی کم اور وقت زیادہ صَرف ہوتا ہے۔
سرد رتیں آنے سے پہلے ہی گلیوں میں روئی دھنکنے والے کی صدا بلند ہوتی تھی اور گھر کی خواتین جاڑے سے پہلے لحافوں کی روئی دھنکوا لیا کرتی تھیں کہ نرم روئی سردی روکنے میں بہت کارگر ثابت ہوتی تھی۔
وقت بدلا اور جہاں بہت سی مشینوں نے انسان کی جگہ لے لی وہیں روئی دھنکنے والا یہ کردار اور سردیوں سے جڑی یہ روایت بھی بزرگوں کی ان باتوں اور یادوں کی طرح گھر کے کسی ٹرنک یا پیٹی میں محفوظ ہو گئیں۔
وفاقی دارالحکومت میں گزشتہ دو دہائیوں سے زائد عرصے خان بہادر روئی کی دھنائی اور لحاف تیار کرنے کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سردیاں آتی ہیں تو لوگوں کو ان کی یاد بھی آتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پہلے ہاتھ سے روئی کی دھنائی ہوتی تھی کیونکہ طریقہ ہی صرف یہی تھا۔
’’اس میں ٹائم زیادہ لگتا تھا، سارے دن میں پانچ، دس رضائیاں بنتی تھیں دھنائی کر کے۔ اب مشینی دور ہے ہم 100 سے لے کر 200 تک رضائی تیار کرتے ہیں، مشین سے بھرائی کرتے ہیں، پھر چھڑی سے اسے (لحاف) ہموار کرتے ہیں اور سلائی کر کے دیتے ہیں۔‘‘
خان بہادر کے ہاں کام کرنے والوں میں دھنائی سے لے کر لحاف کو حتمی شکل دینے والوں تک درجن بھر لوگ کام کرتے ہیں جو تمام کے تمام سردیوں کی صبح سے شام ڈھلنے تک ایک مصروف دن گزارتے ہیں۔
بازار میں دستیاب تیار رضائیوں (لحاف) سے دھنکی روئی والے لحاف کا موازنہ کرتے ہوئے خان بہادر کا کہنا تھا ’’گرمائش تو سب میں ہوتی ہے مگر پائیداری زیادہ دیسی روئی والی رضائی کی ہوتی ہے، یہ زیادہ عرصہ چلتی ہے۔‘‘
ان کے بقول وہ پولیسٹر سمیت روئی کی مختلف معیار کے لحاف تیار کرتے ہیں اور ان کے ہاں ایک ہزار روپے سے لے کر تین ہزار تک کی رضائیاں بنائی جاتی ہیں۔
’’دیسی روئی کھیتوں میں اگنے والی کپاس کی اچھی کوالٹی سے حاصل ہوتی ہے۔ پھر ملوں میں استعمال ہونے کے بعد جو ذرا کم معیار کی روئی بچتی ہے وہ بھی لحافوں میں استعمال ہوتی ہے۔ ایک بہترین رضائی میں عموماً پانچ کلو روئی استعمال ہوتی ہے۔‘‘
ملک میں توانائی کے بحران سے جہاں دیگر شعبے متاثر ہوئے ہیں وہیں موسم سرما میں مصروف رہنے والے یہ کاریگر بھی متفکر نظر آئے۔
خان بہادر کہتے ہیں کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ سے ان کا کام خاصا متاثر ہوتا ہے۔ ان کے بقول وہ کام تو اب بھی کرلیتے ہیں مگر اس صورتحال میں کارکردگی کم اور وقت زیادہ صَرف ہوتا ہے۔