پاکستان کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ سیلاب کی وجہ سے معیشت کو پہنچنے والے نقصانات نے ملکی قرضوں کی ادائیگی کے متعلق تحفظات کو جنم دیا ہے۔ تاہم اگر معیشت کے استحکام کے لیے شروع کی گئیں اصلاحات پر عمل جاری رہا تو ملک کسی صورت معاشی دیوالیہ نہیں ہوگا۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کو دیے گئے انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ سیلاب سے ہونے والی تباہی کے باوجود گرتے ہوئے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ معاشی استحکام سے متعلق زیادہ تر پالیسیاں اور اہداف تاحال ٹریک پر ہیں۔
پاکستان گزشتہ ماہ ہی کئی مہینوں کی تاخیر کے بعد عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پروگرام کو دوبارہ بحال کرانے میں کامیاب رہا جس کے بعد مختصر وقت کے لیے ملکی معاشی صورتِ حال میں مثبت رجحان دیکھا گیا تھا۔ تاہم تباہ کن بارشوں نے ملک کے ایک تہائی حصے کو متاثر کیا جس سے معیشت پر بھاری اضافی بوجھ پڑ گیا ہے۔
ملک میں سیلاب کے باعث تین کروڑ سے زائد افراد متاثر ہیں اور 1500 سے زائد اموات ہو چکی ہیں جب کہ بڑے پیمانے پر رہائشی عمارات، فصلوں اور انفرااسٹرکچر کو نقصان پہنچا ہے۔
سیلاب کی تباہ کاریوں سے معیشت کو درپیش مسائل کے باعث پاکستان کے معاشی دیوالیہ پن کا اندیشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے تاہم وفاقی وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل نے اپنے انٹرویو میں ’ایبسلوٹلی ناٹ‘ کہتے ہوئے ان خدشات کی نفی کی ہے۔
خطرہ ٹل گیا؟
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ سیلاب اور مالی بدانتظامی کے سبب پاکستان کے لیے اقتصادی مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے تاہم آئی ایم ایف پروگرام میں ہونے کے باعث ملک کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ زیادہ نہیں ہے۔
معاشی ماہر اکبر زیدی کہتے ہیں کہ پاکستان کے ڈیفالٹ کا نہ تو پہلے خطرہ تھا اور نہ ہی اب ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ جو ممالک آئی ایم ایف پروگرام میں ہوتے ہیں انہیں عالمی مالیاتی فنڈ ڈیفالٹ نہیں ہونے دیتا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ دیوالیہ پن کے بہت سے نقصانات ہوتے ہیں۔ اس لیے نہ تو حکومت ڈیفالٹ کی طرف جانا چاہے گی اور نہ ہی آئی ایم ایف پاکستان کو ان حالات میں دیوالیہ ہونے دے گا۔
انہوں نے کہا کہ معیشت کی گراوٹ کے سبب اس وقت تشویش ضرور بڑھ رہی ہے کہ مسائل سخت سے سخت ہوتے جارہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے بعد حالات بہتر ہونے کی امیدیں بھی پوری نہیں ہوئیں۔
اقتصادی ماہر فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ عام طور پر کوئی ملک دیوالیہ تب ہوتا ہے جب وہ کمرشل یا بانڈز کے قرض واپس نہ کرسکے اور پاکستان اس وجہ سے بھی دیوالیہ پن کی طرف نہیں جائے گا کیوں کہ ہمارے زیادہ تر قرضے عالمی اداروں سے لیے گئے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر تکنیکی تفصیلات میں نہ جائیں تو پاکستان دیوالیہ ہوچکا ہے لیکن قانونی طور پر جب تک کوئی قرض دینے والا باقاعدہ طور پر یہ نہیں کہتا کہ اس ملک نے میرا قرض واپس نہیں کیا تو اسے دیوالیہ نہیں کہا جاسکتا۔
مالی ضروریات اور مشکلات
خبر رساں ادارے کو اپنے انٹرویو میں وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ غیر ملکی مالیاتی معاونت کے ذرائع بحال ہو چکے ہیں اور ان میں ایشیائی ترقیاتی بینک اور ایشین انفرااسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک اور عالمی بینک سے ملنے والے ساڑھے چار ارب ڈالر شامل ہیں۔
مفتاح اسماعیل پُر اعتماد ہیں کہ رواں مالی سال کے دوران متحدہ عرب امارات، قطر اور سعودی عرب سے مجموعی طور پر پانچ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری آجائے گی۔
اس بارے میں معاشی امور کے ماہر فرخ سلیم کہتے ہیں کہ پاکستان کو ساڑھے 33 ارب ڈالر کی ضرورت تھی اور اسٹیٹ بینک نے کہا تھا کہ رواں مالی سال کے لیے درکار یہ رقم حاصل کر لی گئی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ حکومت کے مطابق کچھ قرضوں کی تجدید ہوجائے گی اور کچھ نئے قرض عالمی بینک سے حاصل کیے جائیں گئے۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ سیلاب کی تباہی سے پہلے کی صورتِ حال ہے۔ طوفانی بارشوں اور سیلاب کے بعد ہماری مالی ضروریات بہت تیزی سے بڑھ جائیں گی اور ایک وقت آجائے گا کہ ہمیں یہ سوچنا پڑے گا کہ ڈالر سے خوراک خریدی جائے یا قرض ادا کیا جائے۔
فرخ سلیم کے بقول یہ مرحلہ آتا ہے یا نہیں البتہ موجودہ معاشی حالات کو دیکھتے یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان اس طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔
رعایت مل سکتی ہے؟
معاشی ماہر اکبر زیدی کا کہنا ہے کہ بڑی قدرتی آفات کی صورت آئی ایم ایف سے کچھ چھوٹ کے ساتھ مالی مراعات ملنے کی بھی گنجائش ہوتی ہے۔
وہ پر امید ہیں کہ پاکستان کو سیلاب کی وجہ سے قرض واپسی میں ایک دو سال کی رعایت مل جائے گی۔
ان کا کہنا ہے کہ اس صورتِ حال پر آئی ایم ایف کی بھی نظر ہوگی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آئی ایم ایف اپنی معاشی اصلاحات اور شرائط کو مزید سخت کردے۔
ڈالر کے مقابلے میں روپے پر دباؤ کی وجہ کیا ہے؟
حالیہ ہفتوں میں ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپیہ مسلسل گراوٹ کا شکار ہے۔ ایک ماہ کے دوران ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں لگ بھگ 20 روپے کمی واقع ہوئی ہے۔
پیر کو کاروبار کے اختتام پر ایک روز میں ڈالر ایک روپے سات پیسے اضافے کے ساتھ انٹر بینک میں ایک امریکی ڈالر 237 روپے 91 پیسے پر بند ہوا۔
اکبر زیدی کا کہنا ہے کہ روپے پر دباؤ کی وجہ ڈالر کا پوری دنیا میں تگڑا ہونا ہے۔ روس کی کرنسی کے علاوہ پوری دنیا کی کرنسی ڈالر کے مقابلے میں 30 سے 40 فی صد تک گری ہے۔
ان کے بقول روپے پر دباؤ کی دوسری وجہ یہ ہے کہ دوست ممالک سے جو مالی امداد آنا تھی، وہ ابھی تک حاصل نہیں ہوسکی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دوست ممالک سے مالی مدد سے معیشت کو کچھ سہارا ملے گا اور روپے پر دباؤ کم ہوگا۔
فرخ سلیم نے کہا کہ حکومت نے بتایا تھا کہ قطر، امارات اور سعودی عرب سے پیسے آرہے ہیں لیکن یہ نہیں بتایا تھا کہ کب آرہے ہیں۔ ہم امیدلگائے بیٹھے تھے کہ آئی ایم ایف پروگرام کے ساتھ ہی یہ رقم بھی آجائے گی۔امکان یہی ہے کہ اس مالی سال میں یہ رقم پاکستان کے خزانے میں آجائے گی۔
ان کا کہنا ہے کہ یورو ہو، یوآن ہو یا پاؤنڈ ہو، گزشتہ دہائیوں کے دوران ڈالر کے مقابلے میں ان کی قدر میں کمی آئی ہے البتہ ہمارا روپیہ کچھ زیادہ گرا ہے۔
فرخ سلیم نے کہا کہ آئندہ کچھ ماہ اور سال بہت مشکل دکھائی دے رہے ہیں۔ کھانے پینے کی اشیا 40 فی صد تک مہنگی ہوچکی ہیں۔ سیلاب کے نقصانات کا تخمینہ 30 ارب ڈالر لگایا جارہا ہے اور زرِ مبادلہ کے ذخائر 8 ارب ڈالر تک گر گئے ہیں۔
’رائٹرز‘ سے انٹرویو میں وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ سیلاب کے باعث برآمدات متاثر ہونے اور درآمدات بڑھنے کی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ چار ارب ڈالر تک بھی گیا تو پاکستان اس خسارے کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
تاہم انہوں نے یہ اندازہ ظاہر کیا ہے کہ سیلاب کے باعث پیدا ہونے والی صورتِ حال میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ دو ارب ڈالرسے نہیں بڑھے گا۔