امریکہ میں پاکستان کے سفارت کاروں کی نقل و حرکت پر ممکنہ پابندی کی خبروں پر اگرچہ پاکستان کی وزارتِ خارجہ کی طرف کے ترجمان کی طرف سے یہ کہہ کر تبصرہ کرنے سے گریز کیا گیا ہے کہ "ہم میڈیا کی خبروں پر رائے نہیں دیتے،" لیکن یہ معاملہ اب بھی ذرائع ابلاغ میں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔
پاکستان کے وزیرِ مملکت برائے خزانہ اور قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی برائے اُمورِ خارجہ کے رکن رانا محمد افضل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ اگر امریکہ کی طرف سے ایسی پابندی لگائی گئی تو جواباً بھی ویسا ہی اقدام کیا جائے گا۔
"دیکھیں اس کے اوپر جو بھی فیصلہ امریکہ کرے گا ویسا ہی (اقدام پاکستان کی طرف سے کیا جائے گا)۔ پاکستان میں امریکہ کی ایمبیسی ہے۔ بہت بڑی ہے اور بہت زیادہ سفارت کار ہیں۔ اگر وہ ہمارے اوپر پابندی لگائیں گے۔ تو ہمیں بھی لگانی پڑے گی۔ میں دعا کرتا ہوں کہ ہم اس نہج پر نہ آ جائیں۔"
اُن کا کہنا تھا کہ ایسا کوئی بھی اقدام دوطرفہ تعلقات کے لیے نقصان دہ ہو گا۔
"اس سے آپ کیا حاصل کریں گے؟ مطلب پاکستان کے لوگوں پر اگر شک کیا جاتا ہے کہ وہ جاسوسی کرتے ہیں اور ان کی نقل و حرکت کو محدود کرنا ہے تو پھر پاکستان میں بھی اس طرح کے تاثرات پیدا ہوں گے۔۔۔ تو یہ دونوں ملکوں کے لیے اچھا نہیں ہو گا۔"
واضح رہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں پہلے ہی تناؤ پایا جاتا ہے اور سفارت کاروں کی نقل و حرکت پر کسی بھی طرح کی پابندی کے تعلقات پر مزید منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
لیکن بعض معاملات پر مؤقف میں اختلافات کے باوجود پاکستان اور امریکہ کے درمیان معمول کے روابط جاری ہیں۔ امریکی محکمۂ خارجہ کی سینئر اہلکار برائے جنوبی و وسط ایشیائی امور ایلس ویلز نے رواں ماہ کے اوائل میں ہی پاکستان کا سات روزہ دورہ مکمل کیا تھا۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ امریکہ سے رابطوں کا مقصد مل کر کام کرنے کے مشترکہ راستے کو تلاش کرنا ہے اور اس سلسلے میں مشاورت کا سلسلہ جاری ہے۔