اسلام آباد —
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ و منشیات کے بیشتر اراکین نے بدھ کو انسداد دہشت گردی سے متعلق آرڈیننسز کو ’’انسانی حقوق کے منافی‘‘ قرار دے کر منظور کرنے سے انکار کردیا۔
رانا شمیم احمد خان کی سربراہی میں پارلیمنٹ ہاؤس میں ہونے والے کمیٹی کے اجلاس میں حکومت کی جانب سے دہشت گردی اور لاقانونیت کے خلاف کارروائیوں کو موثر بنانے سے متعلق دو آرڈیننسز پیش کیے گئے اور وزارت داخلہ کے عہدیداروں نے ان کی تفصیلات سے اراکین کو آگاہ کیا۔
تاہم اراکین کمیٹی کی اکثریت نے موجودہ حالت میں ان آرڈیننسز کو مسترد کیا اور ان کا کہنا تھا کہ اس کی کئی شقیںقانون نافذ کرنے والے اداروں کے اختیارات میں غیر ضروری اضافے کا بھی سبب بنتی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے حکمران اتحاد میں شامل جمعیت علماء اسلام (ف) کی قانون ساز نعیمہ کشور خان کا کہنا تھا کہ ان صدارتی احکامات میں تبدیلی کے بغیر ان کی جماعت ان کی حمایت نہیں کرے گی۔
’’آپ کسی کو بھی 90 دن زیرحراست رکھنے کا اختیار دے رہے ہیں اور اس دوران وہ بیمار ہو جائیں یا مر جائیں تو ان کا کوئی پرسان حال نا ہوگا تو آپ لاپتہ افراد کے عمل کو قانونی شکل دے رہے ہیں۔ آئین میں ہے آپ تیس دن رکھ سکتے ہیں یا اسے پھر بڑھایا بھی جا سکتا ہے۔‘‘
ان کی تجویز تھی کہ آئین میں درج مقررہ دورانیہ کے ختم ہونے پر ہر 15 دن کے بعد زیر حراست شخص کو میڈیکل رپورٹ کے ساتھ عدالت کے سامنے پیش کیا جائے۔
پارلیمان میں تیسری بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی عارف علوی کا کہنا تھا کہ ان آرڈیننسز میں ان کے بقول سنگین نقائص کی وجہ سے کراچی میں بیشتر دہشت گرد اور جرائم پیشہ عناصر قانون سے بچ گئے ہیں۔
’’آپ نے جوائنٹ انوسٹیگیشن ٹیم کا تو کہہ دیا مگر نہیں بتایا کون اس کا سربراہ ہوگا؟ اگر اس میں ایک سنئیر پولیس افسر اور ایک برگیڈیئر ہوگا تو کس کی چلے گی؟ ‘‘
مسٹر علوی کا کہنا تھا کہ کسی کو زیر حراست لینے کی صورت میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ایک ’’انٹرنل ریویو بورڈ‘‘ ہونا چاہیے جو کہ اس معاملے کو گاہے بگاہے دیکھتا رہے۔
تاہم حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سینئیر رہنما اور قانون ساز تہمینہ دولتانہ نے ان آرڈیننسز سے متعلق اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ساتھی ’’ان آرڈیننسز کو درست انداز میں سمجھ نا سکے‘‘ ورنہ ان کے بقول تمام نقاط اس میں موجود تھے۔
’’ان قوانین کو جلد پارلیمان سے منظور کروانا ہوگا۔ اگر ہم نے تاخیر کی تو مسائل پورے پاکستان کے عوام کو برداشت کرنا ہوں گے۔ ہمارے پاس آگے ہی وقت بہت کم ہے۔‘‘
اراکین کی طرف سے شدید مخالفت پر کمیٹی کے چیئرمین نے ان آرڈیننسز کی بدھ کو منظوری پیر تک موخر کردی۔ کسی بھی صدارتی حکم کی معیاد 90 دن کی ہوتی ہے اور اسے باقاعدہ قانون کی شکل دینے کے لیے اس معیاد کے ختم ہونے سے پہلے آرڈینس کو پارلیمان سے منظور کروانا لازمی ہوتا ہے۔
وزارت داخلہ کے حکام کے مطابق ان آرڈیننسز کی پارلیمان سے منظوری میں تاخیر سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو سنگین مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
رانا شمیم احمد خان کی سربراہی میں پارلیمنٹ ہاؤس میں ہونے والے کمیٹی کے اجلاس میں حکومت کی جانب سے دہشت گردی اور لاقانونیت کے خلاف کارروائیوں کو موثر بنانے سے متعلق دو آرڈیننسز پیش کیے گئے اور وزارت داخلہ کے عہدیداروں نے ان کی تفصیلات سے اراکین کو آگاہ کیا۔
تاہم اراکین کمیٹی کی اکثریت نے موجودہ حالت میں ان آرڈیننسز کو مسترد کیا اور ان کا کہنا تھا کہ اس کی کئی شقیںقانون نافذ کرنے والے اداروں کے اختیارات میں غیر ضروری اضافے کا بھی سبب بنتی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے حکمران اتحاد میں شامل جمعیت علماء اسلام (ف) کی قانون ساز نعیمہ کشور خان کا کہنا تھا کہ ان صدارتی احکامات میں تبدیلی کے بغیر ان کی جماعت ان کی حمایت نہیں کرے گی۔
’’آپ کسی کو بھی 90 دن زیرحراست رکھنے کا اختیار دے رہے ہیں اور اس دوران وہ بیمار ہو جائیں یا مر جائیں تو ان کا کوئی پرسان حال نا ہوگا تو آپ لاپتہ افراد کے عمل کو قانونی شکل دے رہے ہیں۔ آئین میں ہے آپ تیس دن رکھ سکتے ہیں یا اسے پھر بڑھایا بھی جا سکتا ہے۔‘‘
ان کی تجویز تھی کہ آئین میں درج مقررہ دورانیہ کے ختم ہونے پر ہر 15 دن کے بعد زیر حراست شخص کو میڈیکل رپورٹ کے ساتھ عدالت کے سامنے پیش کیا جائے۔
پارلیمان میں تیسری بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی عارف علوی کا کہنا تھا کہ ان آرڈیننسز میں ان کے بقول سنگین نقائص کی وجہ سے کراچی میں بیشتر دہشت گرد اور جرائم پیشہ عناصر قانون سے بچ گئے ہیں۔
’’آپ نے جوائنٹ انوسٹیگیشن ٹیم کا تو کہہ دیا مگر نہیں بتایا کون اس کا سربراہ ہوگا؟ اگر اس میں ایک سنئیر پولیس افسر اور ایک برگیڈیئر ہوگا تو کس کی چلے گی؟ ‘‘
مسٹر علوی کا کہنا تھا کہ کسی کو زیر حراست لینے کی صورت میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ایک ’’انٹرنل ریویو بورڈ‘‘ ہونا چاہیے جو کہ اس معاملے کو گاہے بگاہے دیکھتا رہے۔
تاہم حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سینئیر رہنما اور قانون ساز تہمینہ دولتانہ نے ان آرڈیننسز سے متعلق اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ساتھی ’’ان آرڈیننسز کو درست انداز میں سمجھ نا سکے‘‘ ورنہ ان کے بقول تمام نقاط اس میں موجود تھے۔
’’ان قوانین کو جلد پارلیمان سے منظور کروانا ہوگا۔ اگر ہم نے تاخیر کی تو مسائل پورے پاکستان کے عوام کو برداشت کرنا ہوں گے۔ ہمارے پاس آگے ہی وقت بہت کم ہے۔‘‘
اراکین کی طرف سے شدید مخالفت پر کمیٹی کے چیئرمین نے ان آرڈیننسز کی بدھ کو منظوری پیر تک موخر کردی۔ کسی بھی صدارتی حکم کی معیاد 90 دن کی ہوتی ہے اور اسے باقاعدہ قانون کی شکل دینے کے لیے اس معیاد کے ختم ہونے سے پہلے آرڈینس کو پارلیمان سے منظور کروانا لازمی ہوتا ہے۔
وزارت داخلہ کے حکام کے مطابق ان آرڈیننسز کی پارلیمان سے منظوری میں تاخیر سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو سنگین مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔