اسلام آباد —
پاکستانی طالبان کے نامزد کردہ مذاکرات کار جمعرات کو شمالی وزیرستان پہنچے جہاں وہ کالعدم تحریک طالبان پاکستانی کی شوریٰ سے ملاقات کر رہے ہیں۔
حکومت کی طرف سے فراہم کردہ ہیلی کاپٹر کے ذریعے جماعت اسلامی کے سابق سینیٹر پروفیسر محمد ابراہیم اور جمیعت علمائے اسلام (س) کے رہنما سید محمد یوسف شاہ نے روانگی سے قبل صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ وہ طالبان سے مذاکرات کی راہ کو ہموار کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
مولانا یوسف شاہ کا کہنا تھا کہ ’’حکومت نے بھی ایک نئی کمیٹی کا اعلان کیا ہے اور اُن سے (طالبان کی) ملاقات کی جگہ اور ایجنڈے کے تعین کے لیے یہ دورہ کیا جا رہا ہے… نئی کمیٹی سے ابھی ہم ملے نہیں جب (طالبان سے ملاقات) کر لیں تو پھر واپسی پر ان سے بھی ہم ملیں گے۔‘‘
پروفیسر ابراہیم کا کہنا تھا کہ طالبان شوریٰ سے ملاقات میں تمام امور پر بات کی جائے گی۔
’’شرائط پر بھی بات چیت ہو گی، فی الحال اُن کی دو تجاویز ہیں مذاکرات کو با معنی اور نتیجہ خیز بنانے کے لیے کہ غیر عسکری قیدیوں کو رہا کیا جائے اور ایک امن زون قائم کیا جائے۔‘‘
وزیراعظم کے خصوصی معاون برائے قومی اُمور عرفان صدیقی نے جمعرات کو صحافیوں سے گفتگو میں اس توقع کا اظہار کیا کہ بات چیت کے اس عمل کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔
’’واپس آ کر (طالبان مذاکرات کار) اپنی رپورٹ دیں گے تو پھر یہ واضح ہو گا کہ جو نئی کمیٹی حکومت کی طرف سے بنی ہے کیا طالبان اس کمیٹی کے ساتھ خود بات کرنا چاہتے ہیں، خود کوئی کمیٹی تشکیل دیتے ہیں یا جو طالبان کی کمیٹی پہلے بنی ہوئی ہے اس کے اندر ارکان کا اضافہ کر دیتے ہیں یا اس پر اعتماد کرتے ہیں یہ ایک دو دن میں واضح ہو جائے گا۔‘‘
حکومت کی تشکیل کردہ مذاکراتی کمیٹی کا یہ مطالبہ تھا کہ بات چیت کا عمل اُسی صورت میں آگے بڑھ سکے گا جب دہشت گردی کے واقعات نہیں ہوں گے۔ جس کے بعد طالبان نے مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے ایک ماہ کی جنگ بندی کا اعلان بھی کیا تھا۔
وزیراعظم نواز شریف نے ایک روز قبل حزب مخالف کی ایک بڑی جماعت تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے طالبان سے مذاکراتی عمل اور اس کی ناکامی کی صورت میں متبادل لائحہ عمل پر بات چیت کی تھی۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ حکومت کے مذاکراتی عمل کے باعث دہشت گرد تقسیم ہو گئے ہیں اور اُن کے بقول ایسی صورت جو شدت پسند بات چیت پر یقین ہی نہیں رکھتے اُن کے خلاف کارروائی آسان ہو گی۔
حکومت کی طرف سے فراہم کردہ ہیلی کاپٹر کے ذریعے جماعت اسلامی کے سابق سینیٹر پروفیسر محمد ابراہیم اور جمیعت علمائے اسلام (س) کے رہنما سید محمد یوسف شاہ نے روانگی سے قبل صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ وہ طالبان سے مذاکرات کی راہ کو ہموار کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
مولانا یوسف شاہ کا کہنا تھا کہ ’’حکومت نے بھی ایک نئی کمیٹی کا اعلان کیا ہے اور اُن سے (طالبان کی) ملاقات کی جگہ اور ایجنڈے کے تعین کے لیے یہ دورہ کیا جا رہا ہے… نئی کمیٹی سے ابھی ہم ملے نہیں جب (طالبان سے ملاقات) کر لیں تو پھر واپسی پر ان سے بھی ہم ملیں گے۔‘‘
پروفیسر ابراہیم کا کہنا تھا کہ طالبان شوریٰ سے ملاقات میں تمام امور پر بات کی جائے گی۔
’’شرائط پر بھی بات چیت ہو گی، فی الحال اُن کی دو تجاویز ہیں مذاکرات کو با معنی اور نتیجہ خیز بنانے کے لیے کہ غیر عسکری قیدیوں کو رہا کیا جائے اور ایک امن زون قائم کیا جائے۔‘‘
وزیراعظم کے خصوصی معاون برائے قومی اُمور عرفان صدیقی نے جمعرات کو صحافیوں سے گفتگو میں اس توقع کا اظہار کیا کہ بات چیت کے اس عمل کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔
’’واپس آ کر (طالبان مذاکرات کار) اپنی رپورٹ دیں گے تو پھر یہ واضح ہو گا کہ جو نئی کمیٹی حکومت کی طرف سے بنی ہے کیا طالبان اس کمیٹی کے ساتھ خود بات کرنا چاہتے ہیں، خود کوئی کمیٹی تشکیل دیتے ہیں یا جو طالبان کی کمیٹی پہلے بنی ہوئی ہے اس کے اندر ارکان کا اضافہ کر دیتے ہیں یا اس پر اعتماد کرتے ہیں یہ ایک دو دن میں واضح ہو جائے گا۔‘‘
حکومت کی تشکیل کردہ مذاکراتی کمیٹی کا یہ مطالبہ تھا کہ بات چیت کا عمل اُسی صورت میں آگے بڑھ سکے گا جب دہشت گردی کے واقعات نہیں ہوں گے۔ جس کے بعد طالبان نے مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے ایک ماہ کی جنگ بندی کا اعلان بھی کیا تھا۔
وزیراعظم نواز شریف نے ایک روز قبل حزب مخالف کی ایک بڑی جماعت تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے طالبان سے مذاکراتی عمل اور اس کی ناکامی کی صورت میں متبادل لائحہ عمل پر بات چیت کی تھی۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ حکومت کے مذاکراتی عمل کے باعث دہشت گرد تقسیم ہو گئے ہیں اور اُن کے بقول ایسی صورت جو شدت پسند بات چیت پر یقین ہی نہیں رکھتے اُن کے خلاف کارروائی آسان ہو گی۔