قدرتی حسن سے مالا مال سوات کی خوشحالی میں ایک بڑا ہاتھ پھل دار معیشت يعنی 'فروٹ اکانومی' کا ہے۔ سیب، ناشپاتی، اخروٹ اور خوبانی کے علاوہ سوات آڑو کی پیداوار کے لیے خاص شہرت رکھتا ہے۔
پاکستان ايک زرعی ملک ہے جس ميں گندم کی فصل کو منافع بخش سمجھا جاتا تھا تاہم اب مختلف پھل اور سبزیوں کی کاشت بھی منافع بخش بنتی جا رہی ہے۔
ڈاکٹر عبدالرؤف زرعی تحقيقاتی ادارہ مينگورہ ميں بطور فروٹ سپيشلسٹ کام کر رہے ہيں۔ ان کا کہنا ہے کہ وادی سوات کے لوگوں کی خوشحالی کی بنيادی وجہ ‘فروٹ اکانومی’ ہے۔ سوات ميں حاليہ دنوں آڑو کا سيزن ہے، ڈاکٹر رؤف بتاتے ہیں کہ ايک ايکڑ پر لگے آڑو کے باغ سے تقریباً 25 سے 30 ٹن تک پھل حاصل کيا جا سکتا ہے جبکہ اس کے مقابلے ميں گندم کی فصل کا مارک اپ کافی کم ہے۔
وہ مزيد بتاتے ہيں کہ سوات کے آڑو کے کاشت کاروں کو باقی ماندہ کاشت کاروں پر سبقت حاصل ہے کيونکہ ان کا کسی سے مقابلہ نہیں ہے۔ دوسری بڑی وجہ يہ ہے کہ آڑو کا سيزن مئی سے ستمبر تک ہوتا ہے اور اس کی 12 اقسام مارکيٹ ميں دستياب ہيں جس کی وجہ سے اس کی قيمت نہیں گرتی۔
ايک عام اندازے کے مطابق اگر گندم کی فصل زميندار کو ايک ايکڑ زمين سے ايک لاکھ کا منافع دے رہی تھی تو آڑو اسے دس سے 12 لاکھ تک کا منافع دے رہا ہے۔
ڈاکٹر رؤف کا مزيد کہنا ہے کہ باغات لگانے کے اور بھی بہت سارے فائدے ہيں کيونکہ اس سے روزگار کے مزيد مواقع پيدا ہوتے ہيں۔
پچیس سالہ حاجی سلمان اقبال کا تعلق مردان سے ہے تاہم وہ روزگار کے سلسلے ميں سوات کا رخ کرتے ہيں۔ ‘ميں باغات کی کٹائی اور پيٹی بنانے کا کام کرتا ہوں، اس ميں محنت کم اور منافع زيادہ ہے جبکہ دوسرے کام زيادہ محنت طلب ہوتے ہيں’۔
کہا جاتا ہے کہ ايک چھوٹے سے باغ کے مالک کو شاخ تراشی سے اتنی لکڑی حاصل ہو جاتی ہے جس سے پورا سال اس کے گھر کا چولھا جلتا ہے اور اس سے آس پاس کے جنگلات بھی محفوظ ہوتے ہيں جس کا ماحول پر مثبت اثر پڑتا ہے۔
سوات کے کاشتکار بنيادی طور پر پہلے سيب کے باغات کاشت کرتے تھے ليکن سيب پاکستان کے دوسرے علاقوں ميں بھی پايا جاتا ہے جس سے ان کو کوئی خاطر خواہ آمدنی نہیں ہوتی تھی۔ جبکہ آڑو پر ان کی مکمل اجارہ داری ہے، 2007ء سے 2009ء کے درميان جب سوات طالبان کے زير قبضہ تھا سيب کے باغات کو بہت نقصان پہنچا۔ کہا جاتا ہے کہ آپريشن کے دوران لاکھوں روپے ماليت کا سيب درختوں ميں گل سڑ کر خراب ہوا جس کا زميندار کو بہت نقصان ہوا۔
عثمان علی سوات کے علاقے کبل کے رہائشی ہيں۔ وہ پہلے سيب کاشت کرتے تھے تاہم اب اپنی زمينوں پر آڑو کاشت کرتے ہيں۔ ان کا کہنا ہے کہ سوات کی آب و ہوا پھل دار درختوں کے لئے موزوں ہے۔ ‘اب تک ہم صرف پھلوں کو فروخت کر کے ہی منافع کما رہے ہيں ليکن اگر سوات ميں کوئی جوس کا کارخانہ لگ جائے تو نہ صرف روزگار کے مزيد مواقع پيدا ہو جائیں گے بلکہ اس سے سياحت کو بھی فروغ ملے گا۔
ڈاکٹر روف، عثمان علی کی تائید کرتے ہوے کہتے ہيں کہ سوات کے اس ‘فروٹ اکانومی’ ماڈل کو پورے پاکستان ميں پھيلانا چاہيئے اس سے نہ صرف اندرون ملک کاروبار کو فروغ ملے گا بلکہ بيرون ممالک برآمدات ميں اظافہ کر کے زرمبادلہ بھی کمايا جا سکے گا۔