پاکستان میں میڈیا انڈسٹری کی مالی مشکلات، صحافیوں کی جبری برطرفی، غیر اعلانیہ سینسر شپ اور ریڈیو پاکستان کے ملازمین کی بحالی کے لیے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے زیراہتمام ملک بھر میں یوم اجتجاج منایا گیا۔
صحافی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ موجودہ دور میں صحافیوں جن حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ ماضی میں کبھی نہ تھے، جب کہ حکومت کا کہنا ہے کہ صحافیوں کے مسائل کے حل کے لیے کوشش کی جا رہی ہے۔
پاکستان میں صحافیوں کی مشکلات، جبری برطرفیوں اور ریڈیو پاکستان سے 749 کے قریب افراد برطرف کیے جانے کے خلاف پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے اپیل پر ملک بھر میں اجتجاج کیا گیا۔
اسلام آباد میں سب سے بڑا اجتجاج نیشنل پریس کلب کے باہر کیا گیا جہاں صحافیوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔
صحافیوں نے مختلف بینرز اٹھا رکھے تھے۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے پی ایف یو جے کے جنرل سیکرٹری ناصر زیدی نے کہا کہ صحافیوں کو روزانہ کی بنیاد پر بیروزگار کیا جا رہا ہے۔ صحافیوں پر مالی مشکلات تو ایک طرف، ان پر غیر اعلانیہ سنیسر شپ لگا کر ان کی زبان بندی بھی کی جا رہی ہے۔
ناصر زیدی کا کہنا تھا کہ ویج ایوارڈ کے حوالے سے صحافیوں سے وعدہ کیا گیا اور مالکان سے مشاورت کے بعد اسے منظور کیا گیا، لیکن آج تک اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ انہوں نے کہا کہ اب معاملہ اس سے کہیں زیادہ بگڑ چکا ہے اور ہزاروں افراد ملازمتوں سے محروم ہو چکے ہیں اور ان کے اہل خانہ فاقہ کشی کا شکار ہیں۔
ایچ آر سی پی کی صحافیوں کی حمایت
صحافیوں کی بیروزگاری اور مسائل کے بارے میں ہیومن رائٹس کمشن آف پاکستان نے بھی صحافیوں کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
ایچ آر سی پی کے چیئرپرسن ڈاکٹر مہدی حسن نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صحافیوں کو حق نہیں دیا جا رہا کہ وہ اپنی بات کر سکیں۔ اس کی بڑی وجہ مالکان کے مفادات ہیں۔ مالکان ہمیشہ حکومتوں کا ساتھ دیتے ہیں اور صحافیوں کے حقوق کے لیے کبھی قدم نہیں اٹھایا جاتا۔
انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں یونین کردار ادا کر سکتی ہے لیکن وہ بھی تقسیم ہے۔ اس وقت بھی صحافتی تنظیمیں مختلف تنظیموں میں بٹی ہوئی ہیں اور ان کی وجہ سے کوئی مشترکہ آواز صحافیوں کی سامنے نہیں۔
ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا تھا کہ اس وقت صحافیوں کو معلومات تک رسائی نہیں دی جا رہی۔ صرف حکومتی وزیروں کے بیانات کو چلانے کی اجازت ہے اور انہیں سوال کرنے سے روکا جا رہا ہے۔
ریڈیو پاکستان سے کنٹریکٹ ملازمین فارغ
اسلام آباد میں ریڈیو پاکستان سے منسلک 749 کنٹریکٹ ملازمین کو چند روز قبل ملازمتوں سے برطرف کر دیا گیا۔
یہ ملازمین 17 ہزار سے 25 ہزار روپے کی تنخواہ حاصل کر رہے تھے اور ان میں سے بعض گذشتہ کئی سالوں سے ریڈیو پاکستان سے منسلک تھے۔
ان برطرفیوں پر گذشتہ روز ریڈیو پاکستان کے ملازمین پارلیمنٹ ہاؤس کے قریب اجتجاج کر رہے تھے کہ پولیس نے چند افراد کو گرفتار کرنے کے بعد ان کے خلاف نقص امن کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا۔
صحافتی تنظیموں نے ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن سے کنٹریکٹ ملازمین کو فارغ کرنے پر شدید اجتجاج کیا ہے۔
حکومت کیا کہتی ہے؟
حکومت کا کہنا ہے صحافیوں کی بہتری کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ وزیر اطلاعات شبلی فراز کہتے ہیں کہ صحافیوں کو مشکلات سے نکالنے کے لیے حکومت تمام واجبات ادا کر رہی ہے۔
شبلی فراز کا کہنا تھا کہ حکومت نے صحافتی ادارے چاہے وہ الیکٹرانک میڈیا ہو یا پرنٹ، انہیں ان کے واجبات ادا کر دیے ہیں اور اس کا مقصد یہ ہے کہ ملازمین کو بروقت تنخواہیں ادا کی جائیں۔
حکومتی اقدامات کے باوجود گزشتہ چند ماہ کے دوران سینکڑوں صحافی بیروزگار ہو چکے ہیں اور بعض صحافیوں پر غیر اعلانیہ سینسر شپ عائد کی جا رہی ہے، تاہم حکومت اس سے انکار کرتی آئی ہے۔