پاکستان کے وفاقی دارالحکومت میں ہندوؤں کے لیے کوئی باقاعدہ عبادت گاہ ہے اور نہ ہی اس مذہبی برادری کے انتقال کر جانے والوں کی آخری رسومات ادا کرنے کے لیے شمشان گھاٹ۔
اس معاملے پر ایوان بالا "سینیٹ" کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے "سی ڈی اے" سے سفارش کی ہے کہ وہ زمین فراہم کرے تاکہ یہاں رہنے والے ہندوؤں کے اس حق کی پاسداری ہو سکے۔
کمیٹی کی سربراہ سینیٹر نسرین جلیل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس ضمن میں انسانی حقوق کی وزارت بھی وعدہ کر چکی ہے۔
"ان کو یہ چیزیں مہیا کی جائیں ان کو زمین مہیا کی جائے۔ عبادت گاہ، شمشان گھاٹ ان کا حق ہے۔ ہر برادری جو پاکستان میں رہتی ہے اس کے لیے یہ تمام سہولتیں ہونی چاہیئں۔"
اسلام آباد میں تقریباً ڈیڑھ سو ہندو خاندان مقیم ہیں اور اس کے علاوہ غیر ملکی سفارتخانوں میں بھی ایک قابل ذکر تعداد دوسرے ملکوں سے اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے اس شہر میں آباد ہے۔
وفاقی دارالحکومت سے ملحقہ شہر راولپنڈی میں بھی ہندو برادری کے لگ بھگ چار ہزار لوگ آباد ہیں اور ان کے لیے دو قدیم مندر اور ایک شمشان گھاٹ ہے۔
اس برادری کے ایک سرکردہ رہنما جگ موہن کمار اروڑا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اسلام آباد میں مندر اور شمشان گھاٹ کے لیے جگہ نہ ہونے کو یہاں آباد ہندوؤں کے لیے ایک مشکل صورتحال قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ جیسے مسلمانوں کو نماز کے لیے مسجد کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح ہندوؤں کو بھی پوجا کے لیے مندر درکار ہے۔
"مندر میں جب پوجا ہوتی ہے اس میں لوگ اکٹھے ہوتے ہیں تو ان میں میل جول بڑھتا ہے بھائی چارہ پیدا ہوتا ہے۔۔۔اسلام آباد میں رہنے والے ہندو نے بھی مرنا ہے جیسا میں نے بتایا کہ یہاں زیادہ تر ہندو سندھ سے آئے ہوئے ہیں تو وہ یہاں سے (متوفیٰ) کو اٹھا کر سندھ کے علاقے میں لے جائے تو کوئی لے جا سکتا ہے تو کوئی نہیں لے جاسکتا تو اس سے بڑے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔"
پاکستان کی موجودہ حکومت یہ کہہ چکی ہے کہ وہ ملک میں آباد تمام مذہبی برادریوں کو ان کی مذہبی رسومات اور رہن سہن میں آزادی کی سہولت فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہے اور ان کے حقوق کی پاسداری کو یقینی بنانے کے لیے ان برادریوں کے سرکردہ رہنماؤں کے ساتھ مل کر اقدام بھی کیے جا رہے ہیں۔