پاکستان میں سمندری آلودگی ایک بہت سنگین صورت اختیار کر ہی ہے جو صرف پاکستان کی آبی حیات اور سمندری ماحول پر ہی نہیں بلکہ انسانی زندگی کے مختلف شعبوں پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔
گزشتہ دنوں سندھ کے وزیر ماحولیات محمد تیمور تالپور نے وائس آف امریکہ کی اردو سروس کے پروگرام ہر دم رواں ہے زندگی میں بات کرتے ہوئے پاکستان میں سمندری آلودگی کے اسباب، ان کے اثرات اور اس کی روک تھام کے لیے سندھ حکومت کے اقدامات پر روشنی ڈالی۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے سمندر کو آلودہ کرنے میں میونسپل سیوریج، مذبح خانوں کے کچرے، کیڑے مار ادویات پر مشتمل زرعی کچر ے اور صنعتی کچرے کا اہم دخل ہوتا ہے۔ اسی طرح ہمارے فرٹیلائز پلانٹس، پاور پلانٹس اورصنعتی پلانٹس ان سب کا کچرا آخرکار سمندر ہی میں جاتا ہے اور اس کی آلودگی کا باعث بنتا ہے۔
سمندری آلودگی کے اثرات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ سے پاکستان کی میرین لائف اور سمندری ماحول کے لیے خطرات پیدا ہو رہے ہیں۔ ہمارے مینگرو فاریسٹس متاثر ہو رہے ہیں۔ ہماری مچھلیاں متاثر ہو رہی ہیں۔ مچھیروں کا کاروبار متاثر ہو رہا ہے۔ سی فوڈ متاثر ہو رہا ہے اور ہماری بہت سی ایکسپورٹس پر پابندی عائد ہو رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ آلودہ پانی جب آبپاشی کے لیے استعمال ہوتا ہے تو ہماری فصلوں کو متاثر کرتا ہے جس سے آخرکار ہماری صحت متاثر ہوتی ہے۔
محمد تیمور تالپور نےکہا کہ سندھ این وائرن مینٹل پروٹکشن ایکٹ 2014 کے تحت حکومت کو سمندری پانی کو آلودہ کرنے والے اداروں کے خلاف قانونی چارہ جوئی، اور انہیں بند تک کرنے کا اختیار حاصل ہے جس کے تحت وہ اب تک متعدد کارروائیاں کر چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت اب تک صوبے میں مختلف صنعتوں میں کچروں کو ٹریٹ کرنے کے 130 پلانٹس لگوا چکی ہے۔ آلودگی پھیلانے والی مختلف صنعتوں کے خلاف 382 مقدمات جوڈیشل مجسٹریٹس کے پاس دائر کر چکی ہے۔ اور مختلف صنعتوں کو چار ماہ کی مدت کے اندر اپنا کچرا ٹریٹ کرانے کے پلانٹ لگانے کا نوٹس دے چکی ہے جس کی خلاف ورزی پر وہ ان کے خلاف اقدام کرے گی ۔ان کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت 18 مزید ایسے مقامات مقرر کر رہی ہے جہاں کچرے کو دبایا جائے گا۔
سندھ کے وزیر ماحولیات محمد تیمور تالپور نے پلاسٹک آلودگی کی روک تھام کے بارے میں حکومتی اقدامات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ پلاسٹک کے استعمال کو ہر ممکن حد تک کم کریں گے۔ پلاسٹک بیگز پر زیادہ سے زیادہ پابندیاں عائد کریں گے اور کوشش کریں گے کہ اس کی جگہ کسی اور قسم کے سستے بیگز متعارف کرائیں تاکہ سمندری زندگی کو پلاسٹک کی آلودگی سے پاک کرنے کی کوششوں میں اضافہ کیا جا سکے۔