رسائی کے لنکس

راولپنڈی میں کرفیو میں عارضی نرمی، حالات بدستور کشیدہ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

راولپنڈی انتظامیہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار محمد علی رندھاوا کا کہنا تھا کہ اگر علما اپنے اپنے لوگوں کو پرامن رکھنے کی یقین دہانی کرواتے ہیں تو پھر صورتحال کا جائزہ لے کر کرفیو اٹھایا جاسکتا ہے۔

وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا ہے کہ سنی اور شیعہ علما سے مذاکرات کے بعد حکومت پنجاب نے راولپنڈی میں نافذ کرفیو میں تقریباً پانچ گھنٹے کی نرمی کا فیصلہ کیا ہے۔

اتوار کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ تمام متعلقہ اداروں کے اعلیٰ عہدیداروں کے ایک اور اجلاس میں صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد کرفیو کو مکمل طور پر اٹھائے جانے کا فیصلہ کیا جائے گا۔

چودھری نثار کے بقول راولپنڈی میں شام ساڑھے سات بجے سے رات بارہ بجے تک کرفیو میں نرمی ہوگی اور موبائل فون پر صرف پیغامات بھیجنے اور وصول کرنے کی سروس بھی عارضی طور پر بحال رہے گی۔

اس سے پہلے راولپنڈی انتظامیہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار محمد علی رندھاوا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا تھا کہ بات چیت کی کامیابی پر شہر سے کرفیو اٹھانے کے امکانات ہیں۔

’’ اگر علما اپنے اپنے لوگوں کو پرامن رکھنے کی یقین دہانی کرواتے ہیں تو پھر صورتحال کا جائزہ لے کر کرفیو اٹھایا جاسکتا ہے۔ اس میں عام شہری ملوث نہیں بلکہ مدرسوں کے طلبہ ہیں۔‘‘

وفاقی دارالحکومت سے ملحقہ شہر راولپنڈی میں یوم عاشور پر بدامنی کے واقعے سے پیدا ہونے والی کشیدگی کو ختم کرنے کی غرض سے اتوار کو وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے سنی اور شعیہ مسلک سے تعلق رکھنے والے علماء سے مذکرات کیے۔

جمعہ کو مصروف تجارتی علاقے راجہ بازار میں ماتمی جلوس کے دوران فرقہ وارانہ کشیدگی کے بعد تصادم کے نتیجے میں کم از کم نو افراد ہلاک اور 30 سے زائد ہلاک ہوگئے تھے۔

اس دوران یہاں کپڑوں کی مارکیٹ سمیت مختلف املاک کو نذر آتش کرنے کا واقعہ بھی پیش آیا اور صورتحال کی سنگینی کے پیش نظر شہر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا۔

ادھر لاہور ہائی کے جج مامون رشید شیخ کی سربراہی میں عاشورہ کے روز ہونے والے واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک عدالتی کمیشن تشکیل دے دیا گیا ہے۔

لیکن مذہبی اسکالر مفتی منیب الرحمان کا کہنا تھا کہ کمیشن کے دائرہ اختیار کو وسیع کیے بغیر متوقع نتائج حاصل نہیں ہو پائیں گے۔

’’اس کمیشن کو صرف فیکٹ فائنڈنگ تک محدود نا رکھا جائے اور اسے اپنے آپ کو ٹرائیل کورٹ میں تبدیل کرنے کا اختیار دیا جائے۔ چاہے وہ داخلی ہے یا خارجی سازش اسے بے نقاب کیا جائے۔‘‘

اتوار کو راولپنڈی میں حالات بدستور کشیدہ رہے اور وہاں کرفیو کے نفاذ کے ساتھ ساتھ موبائل فون سروس بھی معطل رہی۔ شہر کو جانے والی تمام بڑی شاہراہوں پر کنٹینرز رکھ کر بند کیا گیا تھا۔

تاہم کرفیو کو توڑتے ہوئے سینکڑوں افراد تنظیم اہل سنت والجماعت کے اعلان پر اس واقعے میں ہلاک ہونے والے تین افراد کی نماز جنازہ میں شرکت کے لیے راولپنڈی کے تاریخی لیاقت باغ میں جمع ہوئے۔

سلامتی کے خدشات کے پیش نظر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں رات ایک بجے موبائل فون سروس معطل کی گئی تھی جو اتوار کی دوپہر دو بجے بحال کر دی گئی۔

ملک میں فرقہ وارانہ فسادات یا کشیدگی کوئی نئی بات نہیں لیکن راولپنڈی جیسے اہم شہر میں دو روز سے نافذ کرفیو کی وجہ سے عوام خوف و ہراس کا شکار ہیں۔

پاکستان علماء کانفرنس کے چیئرمین مولانا طاہر اشرفی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’علماء کا کام ہے لوگوں اور اپنے طلباء کو پرامن رہنے کا کہیں۔ مگر اگر کوئی گڑبڑ کرے تو اسے روکنا حکومت کا کام ہے۔ حکومت کی یہ تو ترجیح ہی نہیں۔ اگر تو کوئی واقعہ ہوا تو اس دن کوئی کوشش کی کہ کچھ اچھا ہوجائے اور کچھ دن گزر گئے تو پھر اسے اسلام وعلیکم۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ حکومت عوام کو ایک ضابطہ اخلاق کا پابند بنائے کہ ’’کسی کے مسلک کو چھیڑو نہیں اور اپنے کو چھوڑو نہیں‘‘۔

راولپنڈی کے علاوہ پنجاب کے شہروں ملتان اور بہاولنگر میں بھی فرقہ وارانہ کشیدگی دیکھنے میں آئی تاہم اس دوران فوج نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے ہمراہ سکیورٹی انتظامات کو مزید سخت کر رکھا ہے۔
XS
SM
MD
LG