پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کو جہاں ان دنوں سیاسی مخالفت کا سامنا ہے وہیں قانونی معاملات بھی ان کے لیے مزید پریشانیوں کا باعث بن سکتے ہیں۔
گو کہ بیرون ملک اثاثوں کے لیے آف شور کمپنیاں بنانے کے معاملے پر وزیراعظم عدالت عظمیٰ کو بتا چکے ہیں کہ ان کی کوئی آف شور کمپنی نہیں ہے اور ان کے تمام اثاثے وہی ہیں جن کی تفصیلات وہ الیکشن کمیشن میں جمع کروائے گئے گوشواروں میں فراہم کر چکے ہیں۔
لیکن سیاسی حلقوں کی طرف سے اب بھی اس بنا پر وزیراعظم سے مستعفی ہونے کے مطالبات کیے جا رہے ہیں کہ اس عہدے پر فائز رہنے کے لیے وہ اپنا اخلاقی جواز کھو چکے ہیں۔ تاہم وزیراعظم اور ان کی جماعت مسلم لیگ (ن) ان مطالبات کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کر چکے ہیں۔
حزب مخالف کی دوسری بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف پاناما لیکس کی سپریم کورٹ میں جاری سماعت کے باوجود وزیراعظم پر دباؤ ڈالنے کے لیے مختلف فورمز پر آواز بلند کرتی آرہی ہے جب کہ سابقہ حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے بھی اب وزیراعظم کو کڑی تنقید کا نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔
جمعہ کو ہی پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سندھ کے علاقے ڈھیرکی میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاناما لیکس کے معاملے پر احتساب ہر صورت کیا جائے۔
"اگر نواز شریف نے پاناما بل پاس نہ کیا تو ان کو لگ پتا جائے گا کہ جمہوریت بہترین انتقام لکیوں ہے۔"
پیپلز پارٹی نے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے ایک بل ایوان بالا میں پیش کر رکھا ہے۔
لیکن وزیراعظم خود پر الزامات لگانے اور تنقید کرنے والوں کو ملکی ترقی میں رکاوٹ ڈالنے والے قرار دیتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی حکومت نہ صرف اپنی آئینی مدت پوری کرے گی بلکہ آئندہ عام انتخابات میں بھی ایک بار پھر کامیابی سے ہمکنار ہوگی۔
انھوں نے جمعہ کو کہوٹہ کے قریب نڑھ کے علاقے میں ایک جلسے سے خطاب میں سیاسی مخالفین کا نام لیے بغیر انھیں تنقید کا نشانہ بنایا۔
"ان کو یہ سب کچھ کیسے ہضم ہوگا اس لیے وہ رکاوٹیں پیدا کر رہے ہیں کہ کسی نہ کسی طریقے سے ترقی کے پہیے کو روکا جائے۔۔۔ترقی کا پہیہ روکنے والے کامیاب نہیں ہوں گے، دیکھیں نہ کیا کہہ رہے تھے اور کیا ہوا چند دن پہلے۔"
سینیئر تجزیہ کار رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ فی الوقت سیاسی کشیدگی کا خطرہ تو ٹل گیا ہے لیکن جب تک سپریم کورٹ کی طرف سے پاناما لیکس کے معاملے پر کوئی فیصلہ نہیں آجاتا حکومت کے لیے پریشانی اور الجھاؤ برقرار رہے گا۔
ادھر جمعہ کو ہی سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کی طرف سے نظرثانی کی اس درخواست کو مسترد کر دیا جس میں مالی امور میں وزیراعظم کو اپنا صوابدیدی اختیار استعمال کرنے کی اجازت دینے کا کہا گیا تھا۔
عدالت عظمیٰ تین ماہ قبل ہی اپنے ایک فیصلے میں وزیراعظم کو اس ضمن میں صوابدیدی اختیارات استعمال کرنے سے روک چکی تھی۔
رسول بخش ریئس نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی وزیراعظم کی طرف سے مالی وسائل سے متعلق حاصل صوابدیدی اختیارات ریاست کے وسائل پر سیاست کے لیے استعمال ہوتے رہے ہیں جو کہ کسی طور بھی مناسب نہیں ہے۔
"سپریم کورٹ میں دوبارہ جانا ہوگا کہ کسی ایسے منصوبے کا اعلان وزیراعظم نہ کر سکے جس کے لیے بجٹ میں رقم یا رقوم مختص نہیں کی گئیں۔ آئے روز ہم دیکھتے ہیں کہ وزیراعظم جہاں جاتے ہیں وہاں اعلان کر دیتے ہیں یہاں سڑک بنا دو یہاں پل بنا دو تو یہ سیاسی مقاصد کے لیے ریاست کے ذرائع کو استعمال کرنا ہوتا ہے، آپ بجٹ میں یہ منصوبے رکھیں اور ان پر عمل کریں۔"
یہ امر قابل ذکر ہے کہ جمعہ کو ہی وزیراعظم نے ایک جلسہ عام سے خطاب میں اس علاقے کے لیے مختلف مںصوبوں کا اعلان کیا ہے۔