رسائی کے لنکس

طالبان سے مذاکراتی عمل میں کردار پر سیاسی جماعتیں ابہام کا شکار


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کا موقف ہے کہ وہ مذاکرات سے کسی صورت پہلو تہی نہیں کرتی تاہم یہ عمل ملکی آئین و قانون کے تحت اور شرائط سے پاک ہونا چاہیے۔

کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے مذاکرات کے لیے ملک کا کوئی بااثر سیاسی رہنماء ضامن کا کردار ادا کرنے کو تیار نہیں۔

جماعت اسلامی کے بعد اب حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے بھی معذرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت عسکریت پسندوں سے بات چیت کے ذریعے ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کرے۔

تاہم وائس آف امریکہ سے جمعہ کو گفتگو کرتے ہوئے نواز لیگ کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات مشاہد اللہ خان نے کہا کہ ان کی جماعت اور قیادت شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہے اگر حکومت اس عمل کو شروع کرے اور اس سے متعلق تفصیلات سامنے آئیں۔

’’وہ جن کی ضمانت مانگ رہے ہیں انہیں خود معلوم ہے کہ کوئی بھی یہ ضمانت نہیں دے سکتا اور ہم بھی نہیں۔ نواز شریف جن مذاکرات کی بات کررہے ہیں وہ بڑے دھیمے انداز میں چلے گا کیونکہ ہمیں جاننا ہوگا کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور ان کے لیے اس کی حساسیت ان کے لحاظ سے کیا ہے۔‘‘

طالبان کی طرف سے گزشتہ ہفتے حکومت سے مذاکرات کی مشروط پیش کش کی گئی تھی جس میں انہوں نے پاکستانی فوج پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے میاں نواز شریف، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور امیر جماعت اسلامی منور حسن کی مذاکرات سے متعلق ضمانت مانگی تھی۔

مشاہد اللہ کا کہنا تھا کہ مذاکرات کا معاملہ انتخابات کے حوالے سے بھی کافی حساس ہے لیکن ’’جب ہم کہہ رہے ہیں مذاکرات شروع ہونے چاہئیں تو مجموعی طور پر ہمارا کردار مثبت ہوگا۔‘‘

مولانا فضل الرحمان کے بھائی اور قانون ساز مولانا عطاالرحمان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت میں طالبان کی پیش کش کے حوالے سے ابھی مشاورت کا عمل نہیں ہوا مگر ان کی جماعت بھی شدت پسندوں کے ساتھ بات چیت کی حامی ہے۔

’’حکومت کو اس پیش کش کو سنجیدگی سے لینا چاہیے ایسا نہ ہو کہ ہم غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حالات مزید خراب کردیں۔‘‘

پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کا موقف ہے کہ وہ مذاکرات سے کسی صورت پہلو تہی نہیں کرتی تاہم یہ عمل ملکی آئین و قانون کے تحت اور شرائط سے پاک ہونا چاہیے۔

حکومتی اتحاد میں شامل عوامی نیشنل پارٹی کی نائب صدر بشری گوہر کہتی ہیں کہ عسکریت پسندوں کی طرف سے سیاست دانوں کی بحیثیت ضامن نامزدگی دراصل سیاسی قوتوں کو تقسیم کرنے کی ایک کوشش بھی ہوسکتی ہے۔

’’علامات کی بجائے ہم نے جڑ سے اسے ختم کرنا ہے۔ ہمیں جلدی میں کوئی فیصلے نہیں کرنے چاہئیں۔ یہ حکومت کا نہیں بلکہ قومی مسئلہ ہے۔ ہمیں مل بیٹھ کر فیصلے لینے ہوں گے ‘‘

عوامی نیشنل پارٹی شدت پسندی کے خلاف متفقہ لائحہ عمل تیار کرنے کے لیے اسلام آباد میں 14 فروری کو کل جماعتی کانفرنس کا انعقاد بھی کررہی ہے۔
XS
SM
MD
LG