پاکستان کے وزیر داخلہ احسن اقبال نے یہ بیان دے کر پاکستان میں افواہوں کا بازار ایک بار پھر گرم کر دیا ہے کہ کچھ ’خفیہ ہاتھ‘ ایک بار پھر ملک میں جمہوریت کو کمزور کرنے کیلئے سرگرم عمل ہیں۔ اُنہوں نے یہ بیان ایسے وقت میں دیا ہے جب مسلم لیگ (نون) کے صدر اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے موجودہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف سمیت اپنی کور ٹیم کو لندن طلب کر کے ہنگامی مشاورت کی ہے۔ اگرچہ اس ملاقات میں ہونے والی بات چیت کی تفصیل جاری نہیں کی گئی لیکن بہت سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس بات چیت میں بھی اُس ’خفیہ ہاتھ‘ کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا ہو گا۔
احسن اقبال نے مذکورہ ’خفیہ ہاتھ‘ کی نشاندہی تو نہیں کی ہے۔ تاہم کچھ باخبر ذرائع اس امکان کو رد نہیں کر رہے ہیں کہ شاید پاکستان میں ایک عبوری حکومت یا کیئر ٹیکر سیٹ اپ کی تیاری کی جار ہی ہے۔ ابھی زیادہ دور کی بات نہیں جب گزشتہ اگست میں بھی ایسی عبوری حکومت کے امکان کی خبریں آنے لگی تھیں کہ تین سال کیلئے جنرل (ریٹائرڈ) راحیل شریف کی سربراہی میں ایک عبوری حکومت کے قیام کے بارے میں غور کیا جا رہا ہے جس میں کچھ سابق سیاستدان، ریٹائرڈ فوجی جرنیل اور سابق بیوروکریٹ شامل ہوں گے۔
پاکستان کے اردو روزنامہ 'خبریں‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2018 میں ہونے والے عام انتخابات منسوخ کر دئے جائیں گے اور اگلے تین برس تک کوئی سیاسی حکومت قائم نہیں ہو گی۔ مذکورہ عبوری حکومت ملک کے سیاسی نظام کو کرپشن سے پاک کرنے کیلئے جامع حکمت عملی پر کام کرے گی۔ اس خبر میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ یہ عبوری حکومت اپنے تین برس کی مدت میں ملک کو پارلیمانی نظام کے بجائے صدارتی نظام کی جانب لے جائے گی تاکہ ملک میں پاور شیئرنگ کی کیفیت کا خاتمہ کیا جا سکے۔
اب دو ماہ بعد احسن اقبال نے افواہوں کا بازار ایک بار پھر گرم کر دیا ہے۔ احسن اقبال نے اپنے فیس بک پر ایک پوسٹ بھی کی ہے جس میں اُنہوں نے پاکستان کی سیاسی تاریخ کے عشروں کا ذکر کچھ اس طرح کیا ہے:
1950 کی دہائی: جمہوریت
1960 کی دہائی: مارشل لاء
1970 کی دہائی: جمہوریت
1980 کی دہائی: مارشل لاء
1990 کی دہائی: جمہوریت
2000 کی دہائی: مارشل لاء
2010 کی دہائی: جمہوریت
2020 کی دہائی: ؟؟؟
یوں احسن اقبال کے فارمولے کے مطابق اگلی باری غیر جمہوری قوتوں کی ہو سکتی ہے کیونکہ بقول اُن کے یہ پیٹرن بن چکا ہے۔ یہ بات واضح نہیں ہے کہ آیا وزیر داخلہ، جو اپنے منصب کی بنا پر اندر کی خبریں یقیناً جانتے ہوں گے، محض فلسفیانہ بیان دے رہے ہیں یا پھر کسی حقیقی خطرے کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔ سیاستدانوں کا یہی دانستہ یا غیر دانستہ ابہام ملک میں افواہوں کی گردش کا سبب بنتا ہے۔
تاہم امریکہ کے معروف پالیسی ساز ادارے یونائیٹڈ اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس کے ایسوسی ایٹ وائس پریزیڈنٹ معید یوسف نے اردو وی او اے سے خصوصی بات چیت کے دوران کہا کہ پاکستان میں افواہ سازی کا کلچر موجود ہے اور جب بھی ملک میں سیاسی بے یقینی کی صورت حال پیدا ہوتی ہے، لوگ اپنے تئیں پیشین گوئیاں شروع کر دیتے ہیں کہ ان حالات میں فوج کیا کرنے والی ہے اور کیا کیئر ٹیکر سیٹ اپ بننے والا ہے اور اُس میں کون کون لوگ شامل ہوں گے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ اب پاکستان کے نظام میں بہت سے کردار موجود ہیں اور اُن میں سے کوئی بھی کردار خود سے کوئی حتمی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا معمہ بن چکا ہے جسے حل کرنا اتنا آسان نہیں رہا۔
البتہ نواز شریف نے ایک بات واضح کر دی ہے کہ وہ سیاسی طاقت چھوڑنا نہیں چاہتے۔ یعنی اگر وہ وزیر اعظم نہ بھی بن پائیں تو وہ اپنی پارٹی کا کنٹرول اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ دونوں بھائیوں میں اب سیاسی وراثت کے معاملے پر بھی دراڑ واضح طور پر دکھائی دینے لگی ہے کہ آئیندہ قیادت نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کو دی جائے گی یا شہباز شریف کے بیٹے حمزہ شہباز کو۔ دوسری جانب نواز شریف اور اُن کے خاندان کے خلاف احتساب عدالت میں جاری مقدمات کا فیصلہ بظاہر اُن کے حق میں آتا دکھائی نہیں دیتا۔
جہاں تک فوج کا تعلق ہے، معید یوسف کا خیال ہے کہ ملک میں جاری بے یقینی اور سیاسی عدم استحکام کے بارے میں یقیناً وہاں بات چیت ہو رہی ہو گی کہ معاملات زیادہ بگڑ جانے کی صورت میں اُنہیں کیسے سنبھالا جائے گا۔ معید یوسف کا کہنا ہے کہ حالیہ طور پر فوج کی جانب سے کچھ ایسے بیانات بھی جاری کئے گئے ہیں جن میں سیاسی رنگ موجود ہے۔
یوں پاکستان کے سیاسی منظر نامے کا ہر کردار دوسرے کرداروں کی چالوں پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور اُن کے مطابق ہی اپنے مہروں کو حرکت دے رہا ہے۔
ان تمام حالت کے پیش نظر قرین قیاس یہی ہے کہ اگلے عام انتخابات وقت پر ہوں گے اور اُن میں سب سیاسی حلقوں کیلئے ایک جیسا کھلا میدان ہو گا جن میں نواز شریف اور اُن کی جماعت کا قد بھی کم ہو جائے گا اور دوسری جماعتیں بھی کوئی واضح کامیابی حاصل نہیں کر پائیں گی۔ عمران خان کی جماعت تحریک انصاف فی الوقت اگلے انتخابات کیلئے مکمل طور پر تیار دکھائی نہیں دیتی۔ لہذا انتخابات کے نتیجے میں ممکنہ طور پر ایک ایسی صورت حال ابھر کر سامنے آ سکتی ہے جس میں کسی بھی جماعت کو واضح اکثریت حاصل نہ ہو اور ایک مخلوط حکومت کا قیام ناگزیر ہو جائے۔