رسائی کے لنکس

فوج اور حکومت کے بیانات پر بحث اور قیاس آرائیاں جاری


سابق فوجیوں کی ایک بڑی تنظیم کا کہنا تھا کہ وہ بھی یہ کہتی آئی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جاری فوجی کارروائیوں کے بعد اگر دیگر ادارے مناسب اقدام نہیں کریں گے تو یہ سب قربانیاں رائیگاں جائیں گی۔

پاکستان میں ایک بار پھر جمہوری حکومت اور ملک کے طاقتور ادارے فوج کے درمیان عدم اتفاق کی قیاس آرائیاں زوروں پر ہیں جس کی وجہ فوج کی طرف سے دہشت گردی و انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے وضع کردہ قومی لائحہ عمل پر سول اداروں کی طرف سے مساوی عملدرآمد نہ کیے جانے کا بیان اور اس پر دبے لفظوں میں حکومت کا استرداد بتائی جاتی ہے۔

مقامی ذرائع ابلاغ اور نجی ٹی وی چینلز کے مباحثوں اور مذاکروں میں اس معاملے کو لے کر خوب بچث ہو رہی ہے جب کہ ایوان بالا "سینیٹ" میں بھی قانو سازوں نے فوج کے بیان پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اداروں کو اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنے پر زور دیا۔

رواں ہفتے کور کمانڈرز کانفرنس کے بعد فوج کی طرف سے جاری بیان میں سپہ سالار جنرل راحیل شریف نے کہا تھا کہ دہشت گردوں کے خلاف جاری کارروائیوں کے دیرپا نتائج کے لیے حکومت کو بھی مساوی انتظامی امور اور طرز حکمرانی کے لیے اقدام کرنا ہوں گے۔

اس بیان سے ایک دن بعد ہی وفاقی حکومت کے ترجمان کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ قومی لائحہ عمل پر عملدرآمد مشترکہ ذمہ داری ہے اور تمام اداروں کو آئین کی حدود میں رہ کر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

حکومت کا کہنا تھا کہ اس نے تمام فیصلے کھلے عام اور شفاف انداز میں قومی مفاد میں کیے جب کہ اس کی پالیسیاں اس کے اچھی طرز حکمرانی کی غماز ہیں۔

اس بیان بازی پر سیاسی حلقوں میں اس لیے بھی تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی کہ ملکی تاریخ کا ایک بڑا عرصہ یہاں فوج اقتدار میں رہی ہے۔

مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ بھی حکومت کی کارکردگی سے مطمیئن نہیں لیکن اگر جمہوری طور پر منتخب حکومت کے لیے کوئی خطرہ ہوا تو تمام سیاسی لوگ حکومت کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔

ایوان بالا کے اجلاس میں حزب مخالف کے بعض قانون سازوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ فوج کی طرف سے دہشت گردوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں سے متعلق ان کے ذہن میں بھی سوال ہیں لیکن وہ یہ سوال عوامی سطح پر نہیں پوچھتے۔

پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر سعید غنی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ان کے خیال میں فوج کا ایسے بیانات دینا کچھ مناسب بات نہیں ہے۔

"اگر فوج یہ سمجھتی ہے کہ جو قومی لائحہ عمل ہے یا پھر جو آپریشن وہ کر رہے ہیں اس میں ان کو مناسب حمایت کہیں سے نہیں مل رہی یا کچھ اور چیزیں جس طرح وہ چاہتے ہیں اس طرح نہیں ہو رہی ہیں تو زیادہ مناسب تھا کہ ان چیزوں پر علیحدگی میں بات چیت کر لی جائے بجائے اس کے کہ ذرائع ابلاغ میں بیانات دیے جائیں۔"

ادھر سابق فوجیوں کی ایک بڑی تنظیم نے فوج کے بیان پر سیاستدانوں کے ردعمل پر افسوس کا اظہار کیا۔

ایک بیان میں تنظیم کا کہنا تھا کہ وہ بھی یہ کہتی آئی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جاری فوجی کارروائیوں کے بعد اگر دیگر ادارے مناسب اقدام نہیں کریں گے تو یہ سب قربانیاں رائیگاں جائیں گی۔

پاکستان کی فوج نے گزشتہ سال دہشت گردوں کے مضبوط گڑھ شمالی وزیرستان میں بھرپور فوجی کارروائی کا آغاز کیا تھا جب کہ اب ان کارروائیوں کا دائرہ مختلف علاقوں تک بڑھا دیا گیا ہے۔

حکومت کا کہنا دہشت گردی و انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے وضع کیے گئے قومی لائحہ عمل پر پوری طرح سے عملدرآمد کیا جارہا ہے تاہم بعض حلقوں کی جانب سے اس کی رفتار پر پہلے بھی تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔

XS
SM
MD
LG